[1]اس سے پہلے جماعت اسلامی کے بعض نشریات میں بھی اس قسم کے خیال کا اظہار فرمایا گیا تھا۔ ایک مضمون حضرت مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کا بھی ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا۔ مولانا وسیع النظر عالم ہیں، ان کا مطالعہ وسیع ہے، فنون پر بھی نظر ہے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اصابت فکر سے بھی نوازا ہے۔ مولانا نے اس مضمون میں گویا مولانا مودودی صاحب بالقابہ کے بعض مضامین کو ان کی نوک پلک درست فرما کر ذرا علمی انداز میں شائع فرمایا تھا، مگر ان حضرات کے یہ ارشادات ’’تحقیقی‘‘ تھے، ان کا نہج مناظرانہ نہیں تھا، مگر مجھے اس سے محسوس ہوا کہ علمی حلقوں میں مسلک اہلحدیث کے متعلق یہ غلطی عام ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ائمہ حدیث نے ابتدا ہی سے اپنے آپ کو ’’فرقہ‘‘ کی حیثیت نہیں دی تھی۔ اپنے تشخص اور نظریات کی حفاظت تو کی، لیکن فرقہ پروری کا انداز اختیار نہیں فرمایا، بلکہ دوسرے فرقوں کے ساتھ اختلاف کے باوجود رواداری اور اسلامی وحدت کو ہمیشہ قائم رکھا اور کوشش فرمائی کہ غلط نظریات پر تنقید کے ساتھ اسلام یا سنت کے ساتھ ترادف میں فرق نہ آئے اور کسی فرد واحد کو ایسی ترجمانی کا موقعہ نہ دیا جائے کہ وہ اسلام کے پورے سیاہ و سفید کا مالک ہو جائے۔ اس کی اطاعت واجب، اس کی مخالفت گناہ تصور ہونے لگے۔ میں نے محسوس کیا کہ عام علمی حلقے شاید دیانت داری سے ’’اہلحدیث‘‘ کو ایک فرقہ سمجھتے ہیں، حالانکہ اس کی دعوت ساذج اسلام کے سوا کچھ نہیں، میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ بعض کتابیں اور رسائل شائع ہوئے، جن میں جماعت اہلحدیث کو آڑے ہاتھوں لیا گیا تھا اور ان پر کڑی اور تلخ تنقید کی گئی تھی۔ یہ لٹریچر زیادہ تر دیوبندی مکتبِ فکر کی طرف سے شائع کیا گیا تھا۔
مولانا تھانوی کا خواب:
اسی کے قریب دیوبندی حلقوں میں حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کا ایک خواب بہت مشہور ہے۔ مولانا تھانوی صاحب نے طالب علمی کے زمانہ میں حضرت الشیخ محمد
|