آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے رفقاء کرام نے کہا یا سنا۔ اس لیے اس طریق کا نام ’’فقه الحديث‘‘ رکھا گیا۔ اسی سے اصول فقہ کی وضع اور تصنیف کا سہرا اہل سنت سے علماءِ اہل حدیث ہی پر ہے۔
’’قال الأمام علاؤ الدين الحنفي في ميزان الأصول: اعلم أن أصول الفقه فرع لعلم أصول الدين، فكان من الضرورة أن يقع التصنيف فيه عليٰ اعتقاد مصنف الكتاب، و أكثر التصانيف في أصول الفقه لأهل الاعتزال المخالفين لنا في الأصول، ولأهل الحديث المخالفين لنا في الفروع‘‘ (أبجد العلوم: 2/325)
’’علامہ علاؤ الدین حنفی فرماتے ہیں کہ اصول فقہ علم کلام کی فرع ہے اور یہ ظاہر ہے کہ ہر تصنیف مصنف کے اعتقاد اور خیالات ہی کی ترجمان ہو گی، اور اصول فقہ کی اکثر تصانیف معتزلہ کی ہیں، جو اصول میں ہمارے مخالف ہیں، یا اہل حدیث کی ہیں، جو فروع میں ہمارے مخالف ہیں۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ اصول فقہ کی ضرورت سب سے پہلے ائمہ حدیث یا اہل حدیث کو محسوس ہوئی، اس لیے فقہ الحدیث فن حدیث کے لیے لازمی ہوئی۔ جس طرح فن روایت سے الفاظِ حدیث کی نسبت کی صحت میں فائدہ ہوا، ٹھیک اسی طرح اس علم حدیث نے فقہ الحدیث میں بہت مدد دی اور یہ علماءِ اہل حدیث کا خاص فن ہے۔ صحیح بخاری اور دیگر کتبِ صحاح پر نظر رکھنے والے اس فن کی قدروقیمت کو سمجھ سکتے ہیں کہ محدثین کس قدر فقیہ تھے۔
ان فنون کے علاوہ علم الناسخ والمنسوخ، رموز الحديث، غريب الحديث، طبقات المحدثين، أصول فقه وغیرہ فرعی علوم صرف خدمتِ حدیث کے لیے ایجاد کیے گئے اور امت کے کروڑوں اہل علم صدیوں تک ان علوم کی ایجاد اور توسیع میں مشغول رہے۔ ان بزرگوں کی تصانیف لاکھوں تک پہنچتی ہیں۔ ان کا امت پر بے حد احسان ہے۔
حجیتِ حدیث:
یہ خدمات آفاقی دلائل کی حیثیت سے پتہ دیتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک اس فن شریف کی کیا حیثیت تھی؟ اسے حجت سمجھا جاتا تھا یا نہیں؟ تواتر و تعامل کی حجیت کا اعتراف کرنے والے اس
|