Maktaba Wahhabi

103 - 676
فارس کی حکومت شخصی حکومت تھی۔ یزدجرد کی موت پر اس کا خاتمہ ہو گیا۔ یزدجرد کا خاندان یقیناً اس انقلاب میں پامال ہوا ہو گا، لیکن تاریخ اس وقت کسی ایسی سازش کا پتہ نہیں دیتی جو اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کے طور پر کی گئی ہو۔ نوشیرواں کے بعد ویسے بھی فارس کی حکومت روبہ انحطاط تھی۔ ان کے کردار میں عدل و انصاف کی بجائے استبداد روز بروز بڑھ رہا تھا۔ عوام کی حکومت کے ساتھ کوئی دلچسپی اور محبت نہیں تھی۔ پھر سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مذہباً فارسی حکومت آتش پرست تھی۔ اسلام نے توحید کے عقیدہ کی سادگی سے یہودیت اور عیسائیت تک کو متاثر کیا۔ بت پرستی اس کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ آتش پرستی کی وہاں کیا مجال تھی؟ اسلام کی تعلیمات اس مسئلہ میں نہایت مدلل اور واضح تھیں۔ ان میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہ تھی۔ اسلام کا موقف عقیدہ توحید کے معاملہ میں کھلی کتاب تھی۔ وہ دوسروں کے شبہات اور اعتراضات بڑی کشادہ دلی سے سنتا تھا۔ مخالفین کے شبہات کی تردید اور اصلاح میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا تھا، نہ ہی اپنے نظریہ کو کسی پر جبراً ٹھونستا تھا۔ پھر اس کے خلاف کیوں سازش کی جائے؟ کون کرے اور کس طرح کرے؟ فارس کی حکومت کا چراغ خلیفہ ثانی کی حکومت میں گل ہوا۔ یزدجرد کو خود اس کی رعایا نے قتل کیا اور اس کے خاتمہ میں مسلم عساکر کی مدد کی۔ پھر سازش کی ضرورت کیسے ہوئی؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت میں بعض مشتبہ بیانات ملتے ہیں، لیکن قاتل کو جس طرح سزا دی گئی، اس میں کوئی سازش تصور نہیں کی گئی، بلکہ ابو لؤلؤ کا ذاتی انتقام تصور کیا گیا۔ اگر کسی سازش کا خطرہ ہوتا تو عجمی حضرات پر مدینہ منورہ کے دروازے بند کر دیے جاتے۔ بعض غیر معتدل اشخاص سے خطرہ کے باوجود مدینہ منورہ کے داخلہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ شخصی رنجشوں سے بعض وقت قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے، یہی چیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت میں کارفرما تھی۔ اور اگر اسے سازش تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ عام اور قومی نہ تھی، بلکہ ایک فارسی خاندان تک محدود تھی۔ فتح کے بعد: فارس کی فتح کے بعد ہزاروں فارسی اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے، جزیہ دیتے رہے۔ انہیں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا۔ ان کے معبد (آتش کدہ) مدتوں قائم رہے۔ جو لوگ ان سے اسلام کی طرف راغب ہوئے، انہیں اسلام نے پوری ہمدردی کے ساتھ اپنی آغوش میں عزت کے ساتھ جگہ
Flag Counter