Maktaba Wahhabi

329 - 676
چوتھا دور: انگریز کی آمد کے بعد جب ملک میں تعلیمی نظام تقسیم ہوا، دینی تعلیم حضری تعلیم سے الگ ہو گئی۔ سکولوں اور کالجوں کا طریقِ فکر مذہبی مدارس سے مختلف ہو گیا۔ عیسائی مبلغ اپنی حکومت کی سرپرستی میں ہندوستان میں چھا گئے۔ علماء اور مذہبی مدارس تو کیا ان سے متاثر ہوتے، انگریزی تعلیم اور اس کی حمایت کرنے والے ان سے بہت حد تک متاثر ہوئے۔ سید احمد خاں مرحوم سے لے کر سکولوں کے طلبہ اور اساتذہ اس اثر سے نہ بچ سکے۔ ان میں سے بعض حضرات کی اسلام سے وابستگی واقعی خلوص پر مبنی تھی اور ان لوگوں نے عیسائی شبہات کے جواب میں پورے زور سے قلم اٹھایا، مگر ذہن چونکہ متاثر تھا، قلم لڑکھڑا گیا۔ ’’امہات المؤمنین‘‘، ’’خطباتِ احمدیہ‘‘، ’’تفسیری احمدی‘‘ (مصنف سید احمد خاں) میں یہ چیز نمایاں ہے۔ جو حدیث مقاصد کے خلاف آئی، اڑا دی گئی۔ جہاں کسی آیت کا مفہوم یا معجزہ نیچر سے منحرف ہوا، اس کا حلیہ اس طرح بگڑا اور تاویل و تحریف میں ایسا ترادف پیدا کیا جس پر ملائکہ بھی حیران ہو گئے۔ حکومت کو بھی اس سے فائدہ ہوا۔ 1857ھ کے مظالم سے جن دلوں میں انتقام کی آگ جل رہی تھی ایک وقتی مشغلہ ہاتھ آ گیا۔ اس طریقِ فکر کے اثرات ملک میں مختلف انداز میں ظاہر ہوئے۔ اربابِ قادیان پر تاویل کا فیضان ہوا۔ مولوی عبداللہ چکڑالوی کو انکارِ حدیث کا سبق ملا۔ مولانا شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی رحمۃ اللہ علیہما ایسے اساطینِ علم و فضل بھی تھوڑے بہت اس سے متاثر ہوئے۔ مولانا فراہی رحمہ اللہ کی تفسیر کے جو اجزاء عربی میں شائع ہوئے ہیں، ان میں حدیث سے بہت کم استفادہ فرمایا گیا ہے، مگر تورات اور انجیل کے رائج الوقت نسخوں سے کافی استفادہ کیا گیا ہے۔ درایت اور تفقہ: مولانا شبلی رحمہ اللہ نے ’’سيرة النعمان‘‘ میں محدثین کے طریقِ فکر پر کڑی تنقید فرمائی۔ فقہائے کوفہ رحمۃ اللہ علیہم کے طریقِ فکر کی اس عنوان سے حمایت فرمائی گئی کہ اگر وہ آج زندہ ہوتے تو شاید اس جدید انداز کی وکالت کو کبھی پسند نہ فرماتے۔ مولانا نے حدیث کا انکار نہیں فرمایا، لیکن عقل کو درایت اور تفقہ کے نام سے اس قدر اہمیت دی جس سے حدیث اور ائمہ حدیث کے مسلک کو انکار کے قریب قریب نقصان پہنچا، اور چند ایک اہلِ علم کے استثناء کے ساتھ تمام ندوہ کے متعلقین میں یہ
Flag Counter