مرض پایا جاتا ہے۔ اس حلقے میں یہ غلطی عام ہے کہ ائمہ حدیث فقیہ نہ تھے۔ تنقیدِ حدیث کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، ان میں درایت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اصولِ درایت کے مطابق تنقید فقہاء نے فرمائی، اور اب بھی ہر ایک کو حق ہے کہ اس نقطہ نظر سے حدیث پر تنقید کرے۔ جسے چاہے رکھ لے اور جسے چاہے ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ إِنَّا لِلَّـهِ ۔۔!!
پھر درایت کا مفہوم ایسا عام بیان فرمایا جس سے حدیث کا قتلِ عام ہو سکتا ہے۔ ’’سيرة النعمان‘‘ میں مولانا فرماتے ہیں:
’’درایت کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس پر غور کیا جائے کہ وہ طبیعت انسانی کے اقتضاء، زمانہ کی خصوصیات، منسوب الیہ کے حالات اور دیگر قرائنِ عقلی کے ساتھ کیا نسبت رکھتا ہے۔‘‘ [1]
’’اقتضائے طبیعت‘‘ وہی نیچر کا ترجمہ ہے۔ سرسید کا بھی یہی خیال ہے کہ نیچر کے خلاف کوئی چیز مقبول نہیں ہو سکتی۔ اس میں درایت کا مفہوم اس قدر آزاد کر دیا گیا ہے کہ اس پر کوئی پابندی نہیں رہی۔ اقتضائے طبیعت کی حد اور اقتضا کا معیار کیا ہے؟ اور عقلی قرائن کی تعیین کون کرے؟ کیسے کرے؟ زمانہ کی خصوصیات نصوص کی راہ میں حائل ہو سکتی ہوں تو پرویز کے جرم پر بھی نظرِ ثانی ہونی چاہیے۔۔!
عقل کو اس قدر وسیع اختیارات نہ قاضی عیسیٰ بن ابان نے دیے تھے نہ معتزلہ کو یہ حوصلہ ہوا تھا۔ یہ گنوار کے ہاتھ کسوٹی اور پاگل کے قبضے میں تلوار دے دی گئی ہے، جو ان کے جی میں آئے کریں، دین کا خدا حافظ!!
آگے بڑھنے سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ درایت کا مفہوم اہلِ علم کی زبان سے بھی سن لیا جائے تاکہ آج کی درایت اور پرانی درایت میں فرق ظاہر ہو سکے:
’’العلم بدراية الحديث هو علم باحث عن المعني المفهوم من ألفاظ الحديث، وعن المراد منها، مبنيا علي قواعد العربية و ضوابط الشريعة، و مطابقا لأحوال النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ (أبجد العلوم: 2/436، أيضا: مفتاح السعادة و مصباح السيادة: 2/2)
|