صحابہ کا تثبت:
حدیث حجت تھی۔ سلف میں کوئی بھی اس کے خلاف نہ تھا۔ مبتدع فرقے روافض اور خوارج بھی نفسِ حجیت کے منکر نہ تھے۔ ابن حزم فرماتے ہیں:
’’لو أن امرءا قال: لا نأخذ إلا ما وجدنا في القرآن كان كافرا بإجماع الأمة ‘‘ (الإحكام: 2/8)
’’اگر کوئی صرف قرآن کی پابندی پر مصر ہو، تو باتفاق امت وہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘
صحابہ کا عمل یہ تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد معلوم ہو جاتا، تو فوراً تسلیم فرماتے۔ صحابہ کے آخری دور میں جھوٹ کا رواج ہو گیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر غلط الزام لگائے جاتے۔ جھوٹی احادیث اور غلط فتاویٰ ان کی طرف منسوب کیے جاتے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا، تو ہم لوگ ہمہ تن گوش ہو جاتے، لیکن جب لوگوں نے غلط، صحیح کہنا شروع کر دیا، اب ہم جب تک کوئی چیز ثابت نہ ہو جائے، توجہ نہیں کرتے۔ (مقدمہ مسلم) [1]
خبروں میں غلط اور صحیح میں تمیز اور رواۃ کے احوال سے استدلال و استفادہ کی اجازت بلکہ قرآن میں تاکید فرمائی گئی:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ﴾ (الحجرات: 6)
’’جب کوئی غیر مستند آدمی بات بیان کرے، تو اس کی تحقیق کرنا ضروری ہے، ایسا نہ ہو بعد میں ندامت حاصل ہو۔‘‘
اس لیے حسب ضرورت روایات اور احادیث میں تثبت فرماتے تھے۔ جب حدیث کی صحت کے متعلق یقین ہو جاتا، قبول فرما لیتے۔ صحابہ کا یہ تشدد حدیث کے حجت ہونے پر دلیل ہے۔ اگر حدیث ان بزرگوں کی نظر میں حجت نہ ہوتی، تو اس تشدد اور تثبت کی ضرورت کیوں محسوس کرتے؟
بعض منکرین سنت نے ذکر کیا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پانصد حدیث جلا ڈالیں، یہ روایت بلحاظ سند قطعی غیر مستند ہے۔ [2] اگر میں محترم مخاطب کی طرح ضمنی مباحث پر زور دینا چاہتا، تو
|