زیادہ عربی اور عجمی رعایا نے ناپسند کیا یا مسلمان فاتحین عوام کی صوابدید اور دعوت پر وہاں گئے؟ فتح کے بعد عوام پر ظلم کیے یا عوام کو سہولت پہنچائی؟ اگر پہلی صورت ہے تو سازش کے امکانات ہو سکتے ہیں، اس امکان کو کسی حد تک قبول کرنا چاہیے۔ لیکن اگر صورت حال اس کے خلاف ہے، غیر مسلم رعایا اپنے آقاؤں سے تنگ آ چکی تھی، وہ شہنشاہیت کے ناروا بوجھ کو اپنی گردن سے اتار دینا چاہتی تھی۔ مسلمان ان کی دعوت یا ان کی منشا کے مطابق وہاں گئے۔ غیر مسلم رعایا نے نئے فاتحین کو خوش آمدید کہا تو سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جن فارسی علماء نے اسلام قبول کیا، ان کی اکثریت عوام سے تھی۔ شاہی خاندان کے بہت کم لوگ اسلام لائے اور علمی مشغلہ تو ان میں اور بھی کم تھا۔ کون نہیں جانتا کہ فارس کا آخری فرمانبردار ’’یزد جرد‘‘ اپنی قوم کے ہاتھوں مارا گیا۔ جو قوم اپنے بادشاہ کو خود قتل کرتی ہے، تاکہ فاتح آسانی سے آگے بڑھ سکے، وہ اس کے خلاف سازش کیوں کرے گی؟ اور پھر یہ دانشمندی عجمیوں ہی نے کیوں کی؟ عرب مفتوحین نے سازش کیوں نہ کی؟
حدیثوں کے بم:
اور پھر مفتوح قوموں نے انتقام کے لیے نہ تلواریں بنائیں نہ توپیں، بلکہ حدیثوں کے بم بنا کر فاتحین کی پسلیاں توڑ ڈالیں، اور یہ فاتحین حدیثوں کے مارے نڈھال ہو کر پوری عربی اور عجمی قلم رو پر قابض ہو گئے اور صدیوں حکومت کرتے رہے، اور ان مفتوحین نے تقسیم کار کے طور پر مساجد اور مدارس کا شعبہ سنبھال لیا۔ گویا بطور انتقام فاتحین کی تعلیم ایسے اہم شعبہ کی ذمہ داریاں خود سنبھال لیں اور عرب بادشاہوں نے ان انتقام لینے والے عجمیوں کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے۔ ﴿ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمٰن: 60) یہ ہے وہ اکتشاف جو پرویز اینڈ کمپنی نے آج کل کیا اور بعض سادہ لوح عوام کو دھوکا دیا۔ ﴿ وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ﴾ (الشعرا: 227)
تجزیہ:
ہم نے اس تہمت کا اسی ماحول میں تجزیہ کیا ہے اور گزارشات کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے:
(1) سازش ثابت کرنے کے لیے کس قسم کے ثبوت کی ضرورت ہے؟ جس میں یہ حضرات ناکام ہوئے ہیں۔
|