طاقتوں کا ممنون اور وظیفہ خوار ہو، بلکہ اس تاریخ کی تدوین ہی عجمی آلہ کار کے طور پر کی گئی ہو، اس تاریخ پر کہاں تک اعتماد کیا جائے گا؟ دشمن کی تدوین کردہ تاریخ پر کوئی عقلمند کبھی اعتماد کر سکتا ہے؟ ﴿ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّـهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ﴾ (السبا: 46)
امت کا موقف:
اس سازش کو جانتے ہوئے تیرہ صدیوں تک اگر امت نے اس فن کو مستند سمجھا، نظام حکومت کو اس کی روشنی میں مرتب کیا، اپنے مدارس کے نصاب ان علوم سے معمور کیے، تو پوری امت کو بے وقوف کہنا چاہیے یا بد دیانت۔ اگر ایسا نہیں، تو آپ کون ہیں کہ امت کی اس عظیم الشان خدمت کو عجمی سازش سے تعبیر کریں؟ شرم آنی چاہیے کہ دشمن جن کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، تم انہیں سازشی اور خائن سمجھتے ہو!
مجھے یقین ہے کہ منکرین حدیث کا یہ بے ادب اور بے شعور طائفہ ان اساطین علم کو بے وقوف بھی کہے گا اور بے دین بھی، لیکن ان کو تیار رہنا چاہیے کہ اس تقوّل (خود ساختہ بات) کے بعد آپ کی جگہ طلوع اسلام کا دفتر نہیں، بریلی کا مینٹل ہسپتال ہونا چاہیے!!
قرآن اور لغت:
آپ حضرات کے نقطہ نظر سے دین کا سارا انحصار لغتِ عرب اور قرآن پر ہے۔ معاف فرمائیے گا، جب کوئی سازش اس قدر محیط ہو کہ شاہی دربار اور مدارس کے حجرے یکساں اس سے متاثر ہوں، وہاں نہ لغت محفوظ ہے نہ تواتر۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے کسی کی خبر میں اصطلاحی تواتر کے انداز پیدا کرنا چنداں مشکل نہیں۔ آج کل اخبارات اور پراپیگنڈہ سے حقائق کا جس طرح جھٹکا کیا جاتا ہے اور جھوٹ کو جس طرح حقائق کا رنگ دیا جاتا ہے، آپ حضرات اسے ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ خود اپنی تحریک ہی کو دیکھ لیجئے، اس میں دعایت اور پراپیگنڈہ کے سوا کیا رکھا ہے؟ تحریک انکارِ حدیث پورے تخریبی پروگرام پر چل رہی ہے، جسے پراپیگنڈہ کے زور سے تعمیری رنگ دیا جا رہا ہے۔
اس لیے کچھ شک نہیں کہ آپ جن احادیث کو متواتر سمجھ رہے ہیں، یہ بھی کہیں علم و نظر کا
|