ہے، جس کے جواب میں متعد بہ ذخیرہ اہل سنت و حدیث نے جمع کر دیا ہے اور جس کو مُسکت سمجھ کر ہی منکرین حدیث نے یہ نئے نئے جال بچھانے شروع کیے ہیں۔ بہرکیف مولوی ابراہیم صاحب اس سے یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ تدوین یا جمعِ حدیث کا وجود تیسری صدی سے پہلے نہ تھا، مگر یہاں بھی موصوف نے اپنا مقدمہ بے حد تشنہ رکھا اور ان ائمہ کی زندگی کے ایسے پہلوؤں کو نظر انداز فرمایا ہے، جو ان کے خلاف جاتے ہیں۔ اگر ان زاویوں پر نظر رکھتے، تو ایسا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔
ائمہ حدیث کے دور میں ایرانی:
فارسی حکومت تو 23ھ تک پوری طرح کچل کر رکھ دی گئی تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی: ((إِذَا هَلَكَ كِسْرَى فلا كِسْرَى بَعْدَهُ)) [1]آج تک پوری شان سے اپنی صداقت کا اعلان کر رہا ہے۔ جیسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں نے فارسی حکومت کو ختم کر دیا، اس کے بعد کوئی کسروی حکومت برسر اقتدار نہیں آ سکی۔ کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ اس پورے پونے دو سو سال میں ایرانی حکومت نے سر اٹھایا ہو؟ تیسری صدی ہجری میں، جسے تدوینِ حدیث کا زمانہ سمجھا جاتا ہے، کیا فارس میں کوئی ایسی طاقت موجود تھی جو اس ’’عجمی سازش‘‘ کی سرپرستی کر سکے؟ تاریخ کا ایک طالب علم اس کا جواب حتمی نفی میں دے گا۔
یہ پونے دو سو سال، جب کہ خود عرب میں شیعہ سنی کار زار شروع ہو چکا تھا، خوارج اور نواصب دنیا کے سامنے آ چکے تھے، آیا فارسیوں نے بھی کوئی سازش کی؟ پھر ایک ظنی مفروضہ کی بنا پر ائمہ حدیث کو بدنام کرنا، دانشمندی ہے نہ دیانت داری ۔۔!
ہم اس دو سو سال کے عرصہ میں فارس کے ساحل کو اس قدر پر سکون اور مطمئن پاتے ہیں، جس کی نظیر دنیا میں کم ملے گی۔ پھر کوئی پڑھا لکھا آدمی ’’عجمی سازش‘‘ کو کیوں مان لے؟ حقیقت یہ ہے کہ عجمی سازش کی سازش صرف ’’طلوع اسلام‘‘ کے دفتر میں ہے، واقعات میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
عباسی دورِ حکومت میں فارسی اثرات:
منکرین حدیث کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث سازی کی سازش عباسی حکومت
|