کے قول و فعل کی تلقین فرمائی۔ عجیب بات ہے کہ جب یہ حضرات مدینہ میں ہوں تو یہ علم مالک کے نزدیک حجت ہو، لیکن جب یہ علم کوفہ یا شام میں چلا جائے تو اس کی حجیت محلِ نظر ہو جائے ۔۔!
’’والجدران والمساكن والبقاع لا تاثير لها في ترجيح الأقوال و إنما التاثير لأهلها و سكانها‘‘ (إعلام: 2/295)
’’اینٹوں اور مکانات کو کسی بات کی ترجیح میں کیا دخل ہو سکتا ہے؟ اس کا تعلق تو وہاں کے رہنے والوں کے ساتھ ہی ہونا چاہیے۔‘‘
علومِ صحابہ اور سنن نبویہ جہاں ہوں، حجت ہوں گی۔
(6) مدینہ میں بھی اہل علم باہم اختلاف فرماتے تھے۔ موطا میں مالک رحمہ اللہ نے خود ان اختلافات کا ذکر فرمایا ہے۔ اس صورت میں بعض اہل مدینہ کے ارشادات دوسروں پر کیونکر حجت ہوں گے اور مولانا سنت ثابت کرنے کے لئے کن اقوال کو معیار قرار دیں گے؟ موالک کے اس اصول کا لحاظ کیسے کیا جائے گا جب دونوں طرف اہل مدینہ موجود ہوں؟
اہل مدینہ اور ترکِ سنت:
(7) اہل مدینہ بعض اہم سنتوں کو ترک کر چکے تھے۔ مثلاً:
1۔ ہاتھ باندھنا موالک میں رائج نہیں، وہ کھلے ہاتھوں نماز ادا کرتے ہیں۔
2۔ موالک سلام صرف ایک طرف پھیرتے ہیں۔ جمہور ائمہ کا مذہب ہے سلام دونوں طرف ہونا چاہیے۔
3۔ مالکی نماز میں بسم اللہ پڑھنا ہی پسند نہیں کرتے۔
4۔ رفع الیدین ایسی معروف سنت موالک میں معمول بہا نہیں۔
5۔ تکبیرات میں جہر کا رواج مدینہ میں نہیں رہا تھا۔
6۔ دعاءِ استفتاح بالکل ترک کی جا رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعلیم کے لیے عرصہ تک اسے جہر فرمایا۔ [1] (مسلم)
7۔ موالک میں رواج ہے کہ وہ صبح کی اذان وقت سے پہلے کہنا پسند کرتے ہیں، حالانکہ سنت صحیحہ
|