Maktaba Wahhabi

288 - 676
اس کے خلاف ہے۔ اذان وقت ہی کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ 8۔ مسجد میں جنازہ درست ہے، لیکن موالک اسے جائز نہیں سمجھتے۔ ابن حزم نے احکام (ج: 2) میں اس قسم کے بیسیوں مسائل ذکر کیے ہیں جن میں اہل مدینہ کا عمل سنت کے خلاف ہے یا موالک ان سنن کے پابند نہیں جن کا مدینہ منورہ میں عرصہ تک رواج رہا۔ اب دو ہی راہیں ہو سکتی ہیں: یا مالک خود اہل مدینہ کے عمل کو حجت نہیں سمجھتے تھے یا اہل مدینہ کا عمل سنت کے مطابق نہ تھا۔ (8) ممالک اور شہروں کے اعمال اور عادات میں حکومت کو جہاں تک دخل ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مدینہ میں جہاں خلفاء راشدین اور ائمہ ہدیٰ کا اثر رہا، وہاں فاسق و فاجر حکام کا بھی اثر رہا۔ حافظ ابن حزم لکھتے ہیں کہ ’’زمانہ خیر کے بعد مدینہ میں عمرو بن سعید، حجاج بن یوسف، طارق، خالد بن عبداللہ قسری، عبدالرحمٰن بن ضحاک، عثمان بن حیان مری ایسے فاسق و فاجر بادشاہوں کا دور رہا اور ان کے اخلاقی اثرات اور وحشت خیز بدعات سے بھی مدینۃ الرسول متاثر ہوا۔ [1] (الاحکام) امام مالک رحمہ اللہ کے زمانہ میں مدینہ اس ملی جلی تہذیب کا مظہر تھا۔ معلوم نہیں مولانا موالک کے نقطہ نظر کو کہاں تک قابل لحاظ سمجھتے ہیں؟ (9) ایک صدی کے مختلف اثرات کے بعد مولانا اہل مدینہ کے عمل کو اس وہم یا ظن کی بنا پر سنت کی اساس قرار دیتے ہیں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ماخوذ ہو گا، اور سنتِ صحیحہ سے اس لیے گھبراتے ہیں کہ خبر واحد ظنی ہے۔ اوہان و ظنون کو علوم پر ترجیح ہماری سمجھ میں نہیں آئی اور نہ ہی مولانا ایسے فہیم آدمی سے اس کی امید ہونی چاہیے۔ ’’صلت علي الأسد و بلت عن النقد‘‘ کی مثال اس سے زیادہ اور کیا ہو گی؟ مولانا نے کس سادگی سے فرما دیا: ’’اس طریقہ سے معلوم شدہ سنت کو اُس علم سنت پر ترجیح دی گئی جو اخبارِ آحاد سے حاصل ہو۔‘‘ مدینہ کے نام پر جذباتی اپیل تو کی جا سکتی ہے، علم و درایت کی دنیا میں اُس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
Flag Counter