اصل مصیبت:
اصل مصیبت یہ ہے کہ آپ مذہب کو زندگی اور اس کے تمام گوشوں پر محیط نہیں سمجھتے۔ آپ اسے ہر انسان کا پرائیویٹ معاملہ سمجھتے ہیں اور اس کے عمومی مصالح کو خصوصی اور شخصی اختلاف کے پیمانوں سے ناپتے ہیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کو آپ زیادہ سے زیادہ ایک چیف جسٹس کی ذمہ داریوں کے برابر تصور کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کے لیے اُن مصالح کو باور کرنا مشکل ہو جاتا ہے جو ایک پیغمبر اور پھر خاتم النبیین کے پیش نظر ہوتے ہیں، جن کی نبوت پوری دنیا کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہے، پھر صحابہ کے ذہنی کوائف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے ساتھ ان کا تعلق تقریباً اتنا ہی سمجھتے ہیں جس قدر خود آپ کی ذہنی کیفیت ہے۔
اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وقت کے ایک اچھے انسان تھے۔ نتیجتاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آپ اس معیار پر رکھتے ہیں جس پر آپ اپنے خیال سے ایک اچھے آدمی کو پرکھ سکتے ہیں، لیکن مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر معاملہ میں واجب الاتباع انسان سمجھتے ہیں۔ اس لیے آپ کے اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور عامۃ المسلمین کے معیار میں بڑا فرق ہے۔ منکرینِ حدیث اور آج کے یورپ زدہ لوگوں کے ذہن اور ایک سچے مسلمان یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذہن میں یہی فرق ہے۔ آپ اپنی اور اپنے عیال و اطفال کی ذمہ داری سے قاصر ہیں، جبکہ وہ ساری دنیا کی ذمہ داری پوری کامیابی سے اپنے ذمے لیے ہوئے ہیں اور اسے انہوں نے صحیح طور پر پورا کیا ہے۔
احادیث کی کثرت:
ائمہ حدیث اپنے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے اور اپنی کتابوں کے طریقہ انتخاب اور شرائطِ صحت کو بیان کرتے وقت عموماً لاکھوں احادیث کا ذکر فرماتے ہیں۔ مثلاً امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کا انتخاب سات لاکھ (700000) احادیث سے فرمایا۔ امام احمد رحمہ اللہ نے مسند کا انتخاب تین لاکھ احادیث سے کیا۔ مسلم کا انتخاب تین لاکھ احادیث سے کیا گیا۔ ابو زرعہ رحمہ اللہ کو سات لاکھ احادیث یاد تھیں۔
اس قسم کی تصریحات سے عوام پر دو قسم کے اثرات پڑتے ہیں:
اول: یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر نبوت کے بعد قریب قریب تئیس (23) یا پچیس (25) سال ہے۔ اس مختصر عرصہ میں ممکن نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر گفتگو فرما سکیں۔ اس لیے یہ مقدار قابلِ
|