Maktaba Wahhabi

138 - 676
﴿وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ﴾ (النساء: 23) ربیبہ کے نکاح کی حرمت کے ذکر میں اس کی والدہ کے متعلق جس شرط کا ذکر فرمایا ہے، وہ ازدواجی تعلق کی آخری صورت ہے۔ امید ہے آپ باور فرمائیں گے کہ اس میں کافی عریانی ہے، لیکن اس عریانی کے سوا چارہ نہیں۔ (4) ﴿نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ﴾ (البقرۃ: 223) ’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں، تم اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو آؤ۔‘‘ اس میں کچھ عریانی محسوس ہوتی ہے۔ (5) ﴿ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِّن مَّنِيٍّ يُمْنَىٰ ﴾ (القیامۃ: 38) (6) ﴿وَأَنَّهُ خَلَقَ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثَىٰ ﴿٤٥﴾ مِن نُّطْفَةٍ إِذَا تُمْنَىٰ﴾ (النجم: 45، 46) (7) ﴿أَفَرَأَيْتُم مَّا تُمْنُونَ ﴿٥٨﴾ أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ﴾ (الواقعہ: 58، 59) ’’يُمْنَىٰ‘‘، ’’تُمْنَىٰ‘‘ اور ’’ ما تُمْنُونَ ‘‘ میں جس حقیقت کا اظہار فرمایا گیا ہے، اس میں بڑی عریانی ہے، لیکن نعمتِ تخلیق کے اظہار کے لیے یہ عریانی موزوں ترین راہ ہے۔ اس لیے شرم و حیا کے کتنے ہی عاشق کیوں نہ ہوں، ایسے مواقع پر عریاں انداز باور کرنا ہی پڑے گا۔ اس قسم کی عریانی قرآن مجید نے کئی جگہ اختیار فرمائی ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل میں ہر آدمی کو عریانی سے کم و بیش سابقہ ہوتا ہے۔ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔ آپ حضرات کی نزاکت گفتگو میں اس انشراح کو پسند نہیں کرتی، حالانکہ عملاً ننگا ہونا شرعاً اخلاقاً عرفاً جرم ہے، لیکن بعض مواقع پر عملی عریانی کی کھلی اجازت مرحمت فرمائی ہے۔ یہ ضرورت کا تقاضا ہے۔ (8) ﴿وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ﴿٢٩﴾ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٣٠﴾﴾ (المعارج: 29، 30) اہل ایمان اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، مگر بیویوں اور لونڈیوں کے ساتھ عریانی کی اجازت ہے۔ آپ باور فرمائیں یا نہ فرمائیں، قرآن نے یہاں ضرورتاً بالکل ننگا ہونے کی اجازت فرمائی ہے اور اس عریانی کو انسان فطرتاً پسند کرتا ہے اور ضرورتاً بھی۔
Flag Counter