کو حجت شرعی سمجھتے ہیں اور سنت کا یہی مفہوم سمجھتے ہیں جو اوپر کے حوالوں میں مرقوم ہے۔ بعض تعریفات میں معمولی تغایر ہے، اس کا مفہوم اہل علم سمجھتے ہیں۔ ان تعریفات میں حدیث اور سنت کو ہم معنی ظاہر کیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر سب کو شامل سمجھا گیا ہے اور اسی معنی سے اس کی حجیت محل نزاع ہے۔
ائمہ حدیث نے جو کتابیں سنت کے متعلق لکھی ہیں، ان میں بھی قولی، فعلی اور تقریری سنت کا ذکر فرمایا ہے۔ تمام کتبِ سنن شاہد ہیں کہ ان میں سنت کو اسی متعارف اور مصطلح معنی میں ذکر فرمایا گیا ہے اور معلوم ہے کہ سنت کے یہ دفاتر اور ان کے مصنفین کا علم و فضل امت میں مسلم ہے۔ سنت کے متعلق ان کا نقطہ نظر وہی ہے جس کا ذکر اوپر کی عبارات میں ہوا۔
سنت مولانا اصلاحی کی نظر میں:
جن حالات سے متاثر ہو کر مولانا اصلاحی نے ’’ترجمان القرآن‘‘ (اکتوبر 55ء) میں زیرِ تنقید مقالہ سپرد قلم فرمایا ہے، اہل حدیث، اہل قرآن وغیرہ جماعتیں سب مولانا کے پیش نظر ہیں اور ان سب پر مولانا اپنا تفوق ظاہر فرمانا چاہتے ہیں۔
آپ فرماتے ہیں:
’’حدیث اور سنت کا دین میں اصلی مقام واضح کرنے سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ مختصر طور پر وہ فرق واضح کر دوں جو حدیث اور سنت کے درمیان میں سمجھتا ہوں، لیکن عام طور پر لوگ اس کو ملحوظ نہیں رکھتے۔
حدیث تو ہر وہ فعل یا قول یا تقریر ہے جس کی روایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کے ساتھ کی جائے، لیکن سنت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار عمل کیا ہو، جس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخالفت فرمائی ہو، جس کے حضور عام طور پر پابند رہے ہوں۔‘‘ (ترجمان القرآن، اکتوبر 55ء، ص: 137)
(1) مولانا کی یہ تعریف منطقی ہے نہ عرفی، تاہم مولانا نے جو فرمانا تھا کھل کر فرمایا ہے۔ ان کی نظر میں جو اہمیت سنت کو حاصل ہے، وہ حدیث کو نہیں۔
(2) اور یہ اہمیت بھی سنت کے اسی مفہوم کو حاصل ہے جسے مولانا نے اپنے لیے متعین فرمایا ہے یا جس
|