Maktaba Wahhabi

123 - 676
آگے نکلنا ہے۔ اس لیے اب عورت کو برقع اتار پھینکنا چاہیے۔ اسے حق ملنا چاہیے کہ وہ سرِ محفل اپنے حسن کی نمائش کرے۔ کلب میں دوستوں سے ملے۔ مرد کو خواہ مخواہ اس پر بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ ہر ایک کو اپنی خواہشات پوری کرنے کا حق ہے۔ یہ پابندیاں اور ستر، شرم و حیا، یہ حدیثوں نے دین میں شامل کی ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ یا ترجمہ کی ضرورت نہیں۔ اب صرف مفہوم اور مقصد سمجھنا چاہیے اور قرآن اور اسلام کو نئے تقاضوں اور زندگی کی جدید راہوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے۔ اگر یہ کشادگی اسلام میں پیدا نہ کی جا سکی تو زندگی آگے نکل جائے گی، اسلام پیچھے رہ جائے گا، اس لیے قرآن کی تشریح وقت کے مطابق ہونی چاہیے۔ حدیث کی حیثیت غیر مستند تاریخ کی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو کبھی اس طرف بھی ایک نظر ڈال لی جائے، لیکن اس کی تفصیلات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قول اور فعل، اور آپ کی خاموشیاں، اگر دین تصور ہوں تو اسلام تنگ ہو جائے گا اور مسلمانوں کے لیے اس دنیا میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔ انہیں قانون کی اساس نہیں بنانا چاہیے۔ پیش آمدہ حوادث کے متعلق ہر زمانہ میں اس وقت کے لوگ اپنے حالات کے مطابق قرآن کی تفسیر کریں گے۔ تفسیر میں سلف یا خلف یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی پابندی قطعاً نہیں ہو گی، بلکہ یہ مجتہد اور مفسر حضرات جمہور کے انتخاب سے مقرر ہوں گے۔ ملاحظہ ہو: فیصلہ جسٹس محمد شفیع: ’’جہاں تک قرآن مجید کی تعبیر اور اس کے کلیات کو جزئیات پر منطبق کرنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں جو کچھ عوام کے منتخب نمائندے طے کریں گے، اسے بھی قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔‘‘ (بحوالہ منصب رسالت نمبر، ص: 652) اسی قسم کے منتخب نمائندوں سے ایک مرکزِ ملت تشکیل پائے گا۔ ہر زمانہ کا مرکزِ ملت احکامِ اسلامی، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، نکاح، طلاق، بیوع، اجارہ، میراث، اموالِ غنیمت، ٹیکس وغیرہ کے متعلق آزادانہ فیصلہ کرے گا۔ وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے فیصلوں سے آزاد ہو گا۔ کسی دوسرے مرکزِ ملت کے فیصلے بھی اس کے لیے شرعی یا دینی حیثیت نہیں رکھیں گے۔ پہلے اور اب: انکارِ حدیث کے پہلے دور کی حیثیت پہلے ذکر ہو چکی، اب ان پڑھے لکھے بابو صاحبان کے نزدیک اسلام ایک چھوٹی سی ریاست ہے جس میں ہر چند ہزار آدمی آباد ہیں۔ بس اس اسٹیٹ کے
Flag Counter