کے سوچنے کا انداز یہ رہا کہ گویا اس ساری تحریک کے پیش نظر ایک مکان کی آبادی تھی جس کا مالک اور منتظم شیخ چٹو ہے۔ [1]مولوی عبداللہ وغیرہ بحیثیت مولوی وہاں رہتے ہیں۔ کچھ لکھتے ہیں، کچھ بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کے تقاضے صرف اسی قدر ہیں کہ شیخ چٹو ناراض نہ ہوں اور مولوی عبداللہ کچھ لکھتے پڑھتے رہیں۔ عوام کو مطمئن رکھا جائے کہ مولویوں نے اسلام میں بڑی خرابی پیدا کر دی ہے، اسلام بہت لمبا ہو گیا ہے۔ حدیثوں نے اس میں اور اضافہ کر دیا ہے۔ چنانچہ مولوی عبداللہ صاحب سے مولوی رمضان صاحب تک یہ مختصر سا کارخانہ چلتا رہا اور ان سب بزرگوں کو آرڈر دیا گیا کہ ازراہ عنایت ہلکی پھلکی سی نماز بنا دیں، تاکہ مولویوں کی پرانی نماز سے پیچھا چھوٹ جائے۔ کام ہوتا رہا، نماز بنتی رہی۔ منکرین حدیث کے بڑے بڑے فاضل دن رات کام کرتے رہے۔ پچاس سال تک اکابرِ امت پر پھبتیاں اڑتی رہیں۔ پچاس سال کے بعد معلوم ہوا کوئی متفقہ نماز نہیں بن سکی، نہ رکعات کا تعین ہو سکا۔ نہ وظائف طے ہو سکے نہ اوقات کا فیصلہ ہو سکا۔ پچاس سال کے بعد کاریگر باہم دگر دست و گریباں ہو گئے۔ ہر ایک نے دوسرے کے کام کو غلط اور ناتمام کہا۔
آخر نماز نہ بن سکی، مالک تنگ آ گیا، اس نے آرڈر واپس لے لیا اور کارخانہ بند کر دیا اور کاریگر ملتان، گوجرانوالہ، ڈیرہ غازی خان منتقل ہو گئے۔
یہاں تک اسلام چند فقہی مسائل کا نام تھا، جن میں سے سب سے پہلے نماز ہی ان حضرات کی نگاہ میں آئی، جو نہ بن سکی۔ یہ حضرات نہ اسلام کو نظام زندگی سمجھتے تھے نہ ہی اس کے لیے انہوں نے کوئی کوشش کی۔
پچاس سال کے بعد کچھ کلرک ریٹائر ہوئے، کچھ یورپ زدہ حضرات احادیث کی تشریحات سے تنگ آئے ہوئے تھے، جنہیں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور قربانی وغیرہ مسائل کسی طرح پسند نہ تھے۔ انہوں نے نظریہ تو مولوی عبداللہ صاحب سے مستعار لیا، لیکن اپنے سابقہ تجربہ سے فائدہ اٹھا کر نماز، روزہ، ارکانِ اسلام کو کچھ غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کر دیا اور فرمایا: یہ سب وقتی احکام تھے جو اُس وقت امت کو دیے گئے تھے۔ اب دنیا بہت آگے نکل چکی ہے، وقت کے تقاضے بدل چکے ہیں۔ یہ نماز، وضو، روزے، عبادات پرانا فرسودہ فلسفہ ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں زندگی کی دوڑ میں یورپ سے
|