اس کے رنگ کو پہچانتا ہے۔ ایک گنوار پورے استقلال سے ڈٹ گیا ہے کہ میں نہ صرّاف کی مانتا ہوں، نہ کسوٹی مجھے منظور ہے۔ یہ سب غلط ہے، صحیح وہ ہے جو میں کہتا ہوں۔ ممکن ہے منکرین حدیث اسے تحقیق کا نام دیں، عقل مندوں کی دنیا میں اسے حماقت اور گنوار پن سے تعبیر کیا جائے گا۔ ہر فن میں اہل فن ہی کی رائے مستند ہو گی۔
تخریج حدیث کے متعلق دو بڑے حوالوں کے لیے ’’كنوز السنة‘‘ للأستاذ فؤاد عبدالباقي اور ’’خزائن المواريث‘‘ للعلامة عبدالغني أفغاني الحنفي 1143ھ ملاحظہ فرمائیں۔
انجینئر، ڈاکٹر اور طبیب ہی کی رائے اپنے فن میں مستند ہو سکتی ہے، مگر عمادی صاحب فرماتے ہیں کہ محدث، مجتہد، فقہاء، مؤرخین سب متفق ہوں، تو بھی عمادی صاحب کو ان پر یقین نہیں ہو گا۔ عمادی صاحب اپنی درایت کی لاٹھی سے سب کو ہانک دیں گے!
درایت کا مفہوم:
عمادی صاحب کی درایت اور ان کے قرائن پر غور کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ درایت کا مصطلح مفہوم سمجھ لیا جائے۔ جس درایت کو عمادی صاحب روایات کی تنقید میں استعمال فرماتے ہیں، غالباً اس کی ابتداء علامہ شبلی رحمہ اللہ نے ’’سيرة النعمان‘‘ میں فرمائی۔ وہ فقہاءِ عراق کی فقہیات کو درایت کا نام دے کر فقہاءِ محدثین پر انہیں ترجیح دینا چاہتے تھے، حالانکہ فقہاءِ عراق اور ائمہ اصول فقہ بھی درایت کے اس معنی سے حدیث پر تنقید کرنا پسند نہیں فرماتے، جسے عمادی صاحب درایت کہتے ہیں، یعنی سالہا سال کے بعد پیدا شدہ ماحول کو عقل کا نام دے کر صدیوں پہلے کے واقعات کی تحقیق شروع کر دی جائے، جبکہ ماحول اس سے بالکل مختلف تھا۔ عقل کے معیار اور اس کی اقدار ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں۔ ہر ماحول میں عقلیات کا انداز دوسرے ماحول پر بھی منطبق نہیں ہوتا، اس لیے جس ماحول میں واقعہ ہو، اسی ماحول کی عقلیات کے پیمانوں میں اسے ناپنا چاہیے۔
مولانا شبلی رحمہ اللہ کا یہ مفہوم ہمارے علماءِ احناف میں ’’كل جديد لذيذ‘‘[1]کی بنا پر چل نکلا، ورنہ اگر روایات میں خرص و تخمین کے ان پیمانوں کو استعمال کیا جائے، تو حدیث کیا قرآن بھی نہیں بچ سکتا اور دنیا کے مشاہدات اور نقل کے یقینیات ان تُک بندیوں اور جعل سازیوں کی نذر ہو جائیں گے۔
|