’’برعکس اس کے ایرانی ضمیر اسلام اور عربی تہذیب قبول کرنے پر آمادہ نہ ہو سکے۔‘‘
کی تاریخ بنیاد تو کوئی نہیں ہے۔
اسلامی حکومت ایرانیوں کے لیے رحمت تھی:
سمجھ میں نہیں آتا کہ ایرانی مسلمانوں سے کیسے ناخوش ہو سکتے تھے؟ جب کہ ایرانی حکومت نوشیرواں کے بعد انحطاط کی طرف جا رہی تھی اور اس کے نظام میں اضمحلال پیدا ہو چکا تھا، رعایا میں بے اطمینانی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ اسلام میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں رعایا کے حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور اس معاملہ میں مسلم و غیر مسلم میں بھی کوئی امتیاز نہیں تھا۔ جہاں تک حفظِ حقوق اور عدل و انصاف کا تعلق ہے، اسلامی حکومت اس کی پوری طرح پابند تھی، یہی وجہ تھی کہ اسلامی عساکر نے جس طرف رخ کیا، عوام استقبال کے لیے حاضر تھے۔ ان حالات میں کسی عجمی سازش کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
عجمی سازش بازوں کی کوتاہیِ نظر:
’’عجمی سازش‘‘ کا ہوّا دکھانے والوں سے اسلامی تاریخ کے دو اہم مسئلے نظر انداز ہو گئے:
اول: اسلامی نظام حکومت میں عدل و انصاف اور رعیت نوازی کا جذبہ۔ حکومت کا مذہب کچھ بھی کیوں نہ ہو، رعیت کو آرام اور معاشی آسانیاں مہیا ہو جائیں، تو کسی سازش یا انقلاب کا خطرہ ہی باقی نہیں رہتا۔
دوم: اگر کسی ملک کی فتح اور ان کے نظام زندگی میں انقلاب سازشوں کا موجب ہو سکتا ہے، تو ’’عربی سازش‘‘ کا ہوّا بھی تیار ہو جانا چاہیے، کیونکہ جہاں تک پرانے مذہب کی تباہی، قومی رسوم اور عادات کی بربادی کا تعلق ہے، عربوں پر بھی اسلام نے رحم نہیں کیا ہے، بلکہ پوری تہذیب کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ بت گرائے، بت خانے تباہ کیے اور جاہلیت کی ایک ایک چیز کو ختم کر دیا۔ پوری زندگی کو جاہلی رسوم سے نکھار کر رکھ دیا۔ تعجب ہے کہ ’’عربی سازش‘‘ کے لیے ہمارے اہل قرآن مفکرین نے آج کل کیوں تجویز نہیں سوچی؟!
پھر وہی قصہ تدوین!
موصوف نے اپنے سوال کو ’’مدلل‘‘ کرنے کے لیے وہی پرانی بات تدوینِ حدیث کی دہرائی
|