اب اس طریق استدلال پر تھوڑی دیر غور فرمائیے کہ چونکہ ابو الاحوص یا محمد بن عبداللہ بن حارث نوفلی یا سلیمان الاغر یا سلیمان بن ارقم، ابو الاسود وغیرہ کا سن وفات ائمہ حدیث نے نہیں لکھا، یا عمادی صاحب کو اس کا علم نہیں ہو سکا کہ یہ بزرگ کب اس دنیا سے رخصت ہوئے؟ اس لیے امام زہری کی روایت ان سے صحیح نہیں، بلکہ منقطع ہے۔ اپنے قلت اور فقدان فہم سے دوسرے کی خطا پر استدلال یہ ہمارے عمادی صاحب کی نئی منطق ہے، جو الہاماً ایجاد فرمائی گئی ہے۔ اہل علم کے نزدیک تو عدم علم سے عدم شے پر استدلال صحیح نہیں سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اس کی اجازت ہے کہ عدم علم سے عدم شے پر استدلال کیا جائے۔
یہ تیرے زمانے میں دستور نکلا
ایک علمی طغیانی:
معروضات کا دامن اختصار کی انتہائی کوشش کے باوجود پھیلتا جا رہا ہے اور ابھی اس منتشر اور غیر مربوط مضمون کے کئی گوشے ہنوز باقی ہیں، جن سے اس مقدس فن کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس کے باوجود اس آخری گزارش کے بعد ان معروضات کو ختم کرنا چاہتا ہوں اور بوقت ضرورت حاضری کے وعدہ پر آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔
ہمارے عمادی صاحب نے لفظ ’’مدین‘‘ کی تحقیق میں ایک عجیب علمی طغیانی کا ثبوت دیا ہے۔ معلوم نہیں عام منکرین حدیث کے اکتشافات کی طرح یہ بھی ایک اکتشافی طغیانی ہے یا کوئی جدید تحقیق؟
فرماتے ہیں:
’’قاموس میں ہے کہ ’’ایلہ‘‘ مصر اور ینبع کے درمیان ایک شہر ہے، مگر ’’معجم البلدان‘‘ (1/391) میں ہے کہ ’’ایلہ‘‘ شام کے قریب بحر قلزم کے ساحل پر واقع ہے۔ ایک قول ضعیف یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ایلہ‘‘ حجاز اور شام کی سرحد پر آخر حجاز و آغاز شام میں واقع ہے۔ یہ شہر ایلہ بنت مدین بن ابراہیم کے نام پر آباد ہوا، مگر مدین بن ابراہیم کا وجود محل اعتراض ہے۔ حضرت ابراہیم کے دو بیٹے تھے: اسماعیل اور اسحاق۔ یہ تیسرے کہاں سے آ گئے؟‘‘ (طلوع اسلام: 9/72، حاشیہ: 1)
امام زہری رحمہ اللہ چونکہ ایلہ کے رہنے والے تھے، اس لیے ایلہ کے محل وقوع کے متعلق یہ حاشیہ
|