Maktaba Wahhabi

521 - 676
صحابی ہو یا تابعی۔ اور میں نے عرض کیا ہے کہ ارسال روایت میں جرح کا سبب ہو سکتا ہے، راوی پر اس سے کوئی نقص نہیں آتا۔ معلوم نہیں عمادی صاحب نے یہ ہنگامہ کیوں بپا کیا ہے؟! ’’سنين أبو جميله‘‘ کو عمادی صاحب نے تابعی لکھا ہے، محدثین انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: تقریب لابن حجر اور اصابہ و استیعاب) [1]حافظ رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ وہ صغار صحابہ میں سے تھے، گو ان کا سن وفات معلوم نہیں ہو سکا، لیکن صغار صحابہ کا صغار تابعین سے لقاء ممکن ہے، اس لیے ارسال کا دعویٰ دلیل کا محتاج ہے۔ باقی چھ اساتذہ کرام کے لقاء میں شبہ اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے، جب ان کا سن انتقال یقینی طور پر معلوم ہو۔ ابو الاحوص، عثمان بن اسحاق، محمد بن عبداللہ بن حارث کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی وفات کتب رجال سے معلوم نہیں ہو سکی، اس لیے عمادی صاحب نے ایہام ہی میں ارسال کا شبہ پیدا کر دیا ہے۔ عمادی صاحب نے راوی سے زیادہ روایت کی تخریب کا ذمہ لے رکھا ہے! مثال کے طور پر محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل نوفلی کو لیجیے۔ عمادی صاحب کو ان کی وفات کا سال کتب رجال سے نہیں مل سکا، اس لیے عمادی صاحب نے فیصلہ کر دیا کہ امام زہری کی روایت ان سے مرسل ہو گی، حالانکہ اگر دیانتاً قرائن پر غور کیا جائے تو یہ دعویٰ بالکل غلط ثابت ہو گا۔ خلاصہ میں امام زہری کے ساتھ عمر بن عبدالعزیز کو بھی ان کے تلامذہ میں شمار کیا گیا ہے۔ [2] اگر ہمارے عمادی صاحب کی بصیرت ان سے تعاون کرتی اور دیانت ان کی راہنمائی کرتی، تو وہ یقین فرماتے کہ جب ان سے عمر بن عبدالعزیز کے سماع پر محدثین متفق ہیں، تو زہری کی روایت کو مرسل کیوں کر کہا جا سکتا ہے؟ وهما قرينان! بلکہ امام زہری کے علمی مشاغل حضرت عمر بن عبدالعزیز سے کہیں زیادہ ہیں، مگر جب ارادے درست نہ ہوں، تو نصیحت بے سود ہے۔ إذا كان الطبائع طبائع سوء فلا أدب يفيد ولا أديب [3]
Flag Counter