اخذ و سماع، افادہ و استفادہ، لقاء، تلمذ، تعلیم و تدریس کے تمام اثاثہ کو بہا لے جا رہی ہے۔ اللّٰه م إني أعوذبك من زلة الفكر و قلة العلم و فقدان الديانة!
اور کبر و نخوت کا یہ حال ہے کہ محدثین کی سب سے بڑی غلطی یہ بتائی جا رہی ہے کہ ان لوگوں نے حکومت کے عہدے کیوں نہ قبول کیے؟ وہ شامل ہو کر اصلاح کی کوشش کرتے، گویا حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد کے اشتراک کے نتائج ان کے سامنے نہیں۔ حضرت امام ابو حنیفہ اس معاملہ میں دوسرے ائمہ حدیث کے ہمنوا تھے۔ وہ یقین فرماتے تھے کہ حکومت کا مزاج، ائمہ حدیث کا معاملہ تو دوسرا رہا، حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایسے ذہین اور وسیع المشرب انسان کے لیے بھی سازگار نہیں۔ حضرت امام ابو یوسف نے آپ کے حسب منشا حکومت سے پورا پورا اشتراک کیا، لیکن پھر عباسی حکومت کے اربابِ اقتدار میں کون سا انقلاب آ گیا؟ بلکہ الٹے امام ابو یوسف رحمہ اللہ بدنام ہو گئے۔ بہت سی ایسی چیزیں ان کی طرف منسوب کر دی گئیں، جو حضرت امام کے مقام سے فروتر ہیں۔ امام محمد کا بھی یہی حال ہوا۔ بعض دوسرے ائمہ حدیث نے بھی اس بارہ میں مخلصانہ کوششیں فرمائی، فلم ينجح غير خفي حنين
معلوم نہیں ہمارے ان یتیم الفکر حکماء کو کس نے بتایا ہے کہ وہ ان گزرے ہوئے بزرگوں کو اپنی تنقیدات کا تختہ مشق بنائیں، جو اپنے زمانہ کے مزاج سے کہیں زیادہ آشنا تھے اور اپنے وقت کے ارباب اقتدار کی ناہمواریوں کو زیادہ سمجھتے تھے۔ ادباً گزارش ہے کہ ہم گنہگار حاضر ہیں، ہم پر مشق ناز فرمائیے اور ائمہ حدیث اور بزرگان سلف کو ان مقدس مشوروں میں نظر انداز فرمائیے ؎
تو کارے زمین را نکو ساختی [1]
کہ با آسماں نیز پرداختی
ان تمام شیوخ میں جن کا تذکرہ امام زہری کے شیوخ کے ضمن میں کیا گیا ہے، صرف حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ 34ھ سے امام کی روایت مرسل ہو سکتی ہے۔ [2] ممکن ہے محذوف شیخ
|