Maktaba Wahhabi

164 - 676
قرآن و حدیث کا باہمی ربط: بعض آیات قرآن عزیز میں اس طرح مذکور ہوئی ہیں کہ قرآن کا مفہوم حدیث کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہ قرآن کی آواز ہے جو ضرورتِ حدیث کو ثابت کر رہی ہے۔ اشارۃ النص کے طور پر قرآن مجید ضرورتِ حدیث کو ثابت فرماتا ہے۔ منکرینِ حدیث سے مؤدبانہ استدعا ہے کہ بحیثیت طالبِ علم قرآن میں اس طریق پر بھی غور کی تکلیف گوارہ کریں۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ دلوں کو کھول دے اور قوتِ فہم کو استفادہ کا موقع ملے۔ 1۔ ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰه اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّٰه يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ﴾ (التوبة: 36) ’’تحقیق گنتی مہینوں کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سال کے بارہ مہینے ہیں کتاب اللہ میں، جس دن اس نے پیدا کیا آسمان کو اور زمین کو۔ ان میں چار مہینے حرام ہیں۔‘‘ ان چار ماہ کا ذکر قرآن میں اجمالاً آیا ہے۔ ان میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ ان میں ابتداءً لڑائی حرام ہے۔ لیکن نہ قرآن میں بارہ مہینوں کے نام مذکور ہیں اور نہ چار ماہ کا کوئی تفصیلی ذکر موجود ہے۔ یہ تذکرہ احادیث میں ملتا ہے یا عرب کی تاریخ میں۔ معلوم نہیں ہمارے اہلِ قرآن کون سا مقدس ذخیرہ قبول فرمائیں گے؟ 2۔ ﴿وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰه ۗ وَاللّٰه عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾ (المائدة: 38) ’’چور عورت یا مرد اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے کیے کی جزا ہے۔ اللہ تعالیٰ غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘ ’’ید‘‘ کا لفظ عربی زبان میں ناخن سے لے کر کندھے تک بولا جاتا ہے۔ قرآن نے اس کے کاٹنے کا حکم دیا ہے لیکن اس کی حد بیان نہیں فرمائی۔ تواتر عملی سے ثابت ہوتا ہے کہ چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہیے، اور اس کی بناء سنت پر ہے۔ [1]سنت کی حجیت کا انکار کر دیا جائے تو ہاتھ یا تو بغل سے کاٹنا ہو گا یا کوئی اور مستند شرعی حد تلاش کرنی ہو گی۔ یہ قرآن میں سنت کے لیے ایک آواز ہے۔
Flag Counter