Maktaba Wahhabi

163 - 676
محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے خیال میں رب العزت اتنی عربی بھی نہیں جانتے جس قدر یہ متبحر فی الجہل جانتے ہیں ۔۔!! آپ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی ’’تأويل مختلف الحديث في الرد علي أعداء أهل الحديث‘‘ امام طحاوی رحمہ اللہ کی ’’مشكل الآثار‘‘ اور قمی کی ’’الأحاديث المشكلة‘‘ ابنِ فورک کی ’’مشكل الأحاديث‘‘ ملاحظہ فرمائیں تو معلوم ہو گا کہ پرانے اہلِ بدعت حدیث کے کھلے منکر تو نہ تھے لیکن انہیں بعض احادیث اور بعض آیات سے ذہنی الجھن ضرور پیدا ہوئی۔ انہوں نے بھی دو راہیں اختیار کیں: انکار یا تاویل۔ یہ نتیجہ ہے احساسِ کہتری کا جو قلتِ علم کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ پھر عجیب یہ ہے کہ بعض احادیث کو یہ حضرات قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں لیکن نظام [1] اس سے استدلال کرتا ہے۔ حدیثِ تعریضاتِ ابراہیمی ہر منکرِ حدیث کے گلے میں اٹک رہی ہے، نہ اگلتے بنتی ہے نہ نگلتے، لیکن نظام کو دیکھیے وہ جھوٹ کے جواز میں اسی سے استدلال کرتا ہے اور اس حدیث کو اساس قرار دیتا ہے۔ ان گزارشات میں اگر کوئی تلخی ہو تو میں اس کے لیے دوستوں سے معافی چاہتا ہوں لیکن آرزو یہ ہے کہ ان گزارشات کو بغور پڑھا جائے اور سوچا جائے۔ پوری امت ایک طرف ہے اور آپ چند افراد ایک طرف۔ جملہ عالم یک طرف آں شوخ تنہا یک طرف سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور استقلال کا مفہوم قرآن میں اس قدر عام اور واضح ہے کہ سینکڑوں آیات اس موضوع پر جمع کی جا سکتی ہیں۔ توجہ کے لیے صرف چند آیات زیرِ قلم آئی ہیں، تاکہ قرآن مجید کے طالبِ علم اس نہج پر سوچنے کی کوشش کریں۔ آئندہ کسی صحبت میں حدیث کی حجیت کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں ہو گا۔ اور یہ ایک مستقل عنوان ہے کہ آیا جس شخص کی سیرت اس قدر بلند ہو، اس کے اقوال یا اعمال کا مقام یا اس کی حیثیت صرف ایک مؤرخ کی ہو گی اور اس کے ارشادات صرف تاریخ کا ایک قیمتی اور مقدس سرمایہ؟ ناظرین اس کا انتظار کریں۔ [2]
Flag Counter