Maktaba Wahhabi

543 - 676
مولانا تمنا اور مقام نبوت: محترم مخاطب حدیث کو مانتے ہیں۔ ان کے مذاق سے میں یہ سمجھتا ہوں، وہ قرآن کی موافقت کو زیادہ اہمیت دینا چاہتے ہیں۔ ان کو شکایت ہے کہ اصول حدیث میں اسے تبرکاً رکھا گیا ہے، مولانا اسے تبرکاً سے کچھ زیادہ اہمیت دلانا چاہتے ہیں۔ محدثین کی نفسیات سے وہ مطمئن نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تنقید حدیث میں مولانا کی نفسیات کا بھی لحاظ رکھا جائے۔ اس کے بعد وہ حدیث کے ذخائر کو قبول فرماتے ہیں اور ان شرائط کے ساتھ وہ حدیث سے مایوس نہیں ہونا چاہتے، بلکہ وہ اپنی خود ساختہ سنت کے لیے بھی حدیث کے دفاتر کی ضرورت کو قبول فرماتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر حدیث کو کیوں مان لیا گیا ہے؟ اس لیے کہ رسول کو فہمِ قرآن میں دخل ہے، اس کا فہم جو ہے، ﴿ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴾ (القيامة: 19) کے مطابق اس کا بیان خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس کے ارشادات میں ’’هوي‘‘ کو دخل نہیں۔ اس کی عملی زندگی ہمارے لیے اسوہ اور نمونہ ہے، اس کا مقام رسالت، رسالت لغویہ سے کہیں بلند تر ہے۔ الفاظِ قرآن کے علاوہ بھی وہ جو کچھ کہتا ہے، وہ خدا کے حکم اور وحی سے کہتا ہے: ﴿ لِّيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَىٰ كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا ﴾ (الجن: 28) خدا کی حفاظت اس کے علم و عمل پر محیط ہوتی ہے، اس کے قلب اور زبان پر خدا کے پہرے ہوتے ہیں، اس کے ارشادات میں شیطانی اثرات قطعاً سرایت نہیں کر سکتے۔ [1] اگر مخاطب محترم کے ارشادات کا میں نے یہ تجزیہ درست کیا ہے، تو پھر حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کے اثر میں اس سے زیادہ کیا تھا، جو قرآن میں نہیں؟ تعجب ہے جو ’’قرآنی ٹارچ‘‘ سے چوروں کے گھر کا کونا کونا ٹٹولنا چاہتے ہیں، وہ اس ٹارچ کو خود قرآن میں کیوں استعمال نہیں فرماتے؟! مقام رسالت: مخاطب محترم کے لیے یہاں دو ہی راستے ہیں، یا تو وہ خود فرمائیں کہ پیغمبر الفاظِ قرآن کے
Flag Counter