﴿امْرَأَتُ الْعَزِيزِ﴾ (یوسف: 30) ایسے مبہم ارشادات سے یہی سبق حاصل ہوتا ہے۔ اس طریقِ بحث سے علماء کو سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سے مسئلہ صاف ہو جاتا ہے اور ناخوشگوار گرمی کی ضرورت نہیں رہتی۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے ’’الجامع الصحيح‘‘ کے علاوہ بعض مسائل پر مختلف اجزاء بھی لکھے ہیں۔ [1] اس میں صحیح کی شرائط سے بالا ہو کر مسئلہ پر کسی قدر بسط سے بحث فرمائی ہے، لیکن وہاں بھی دلائل سے تجاوز نہیں ہونے پایا۔ بحث ذرا پھیل گی، لیکن کوئی تلخی پیدا نہیں ہوئی۔
آج کل مذہبی مباحثات میں یہ انداز پیدا کرنا چاہیے۔ تلخی اور تیزی سے بالکلیہ پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ بہترین پیشوا ہیں اور یہ صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی پر بس نہیں، اس دور کے علماء کا عموماً مباحث میں یہی طریق تھا۔ وہ متعلقاتِ بحث میں وقت ضائع نہیں کرتے، دلائل ذکر کرنے کے بعد فتویٰ بازی پر نہیں اترتے، بلکہ پورا زور دلیل پر ہوتا ہے۔ یہی بحث کا صحیح طریقہ ہے۔
اختلافی مسائل:
صحیح بخاری تمام اہل سنت میں پڑھی جاتی ہے۔ ہر ایک شوافع، احناف، حنابلہ اس کتاب سے مستفید ہوتے ہیں، اور کتاب میں بعض مروجہ مذاہب کے خلاف دلائل بھی موجود ہیں۔ اوقاتِ نماز، نماز میں طمانیت، صفوں کو ملانا، رفع الیدین، امام کے پیچھے سورت فاتحہ، آمین بالجہر، بستیوں میں جمعہ، تکبیراتِ عیدین، جمعہ میں عورتوں کی حاضری، اس قسم کے سینکڑوں اختلافی مسائل صحیح بخاری میں موجود ہیں۔ اہل علم ان کو پڑھتے ہیں، مخالفت بھی کرتے ہیں، مگر اس سے نہ تکلیف ہوتی ہے نہ رنج، حالانکہ ان مسائل پر گفتگو کرنے سے ہمارے علماء بھی جھجکتے ہیں۔ ان مسائل کی اشاعت کو فرقہ پروری کی دلیل سمجھتے ہیں، لیکن حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں چھوٹے بڑے مسائل کا تذکرہ فرمایا، بلکہ اصل یہ ہے کہ لب و لہجہ کو درست رکھنا چاہیے اور برداشت کی عادت سیکھنا چاہیے۔ اپنی کہہ سکے، مخالف کی سن سکے، مسائل میں تحقیق کی یہی راہ ہے۔ نہ ان مسائل میں غلو ہونا چاہیے، نہ ان مسائل پر گفتگو کرنے سے گھبرانا چاہیے۔
جو لوگ زندگی کے ہر گوشے میں دین کو سرسبز اور قائم دیکھنا چاہتے ہیں اور اقامتِ دین کو وظیفہ زندگی سمجھتے ہیں، معلوم نہیں ان سنتوں کے لیے ان کے ہاں بھی کوئی گوشہ ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمہ اللہ
|