اس سے روایت بالمعنی کے جواز کو مدد ملتی ہے، اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ علوم عربیہ اور اس کے متعلقات کی روشنی میں مضبوط احتساب کیا جائے کہ اصل مقصد گم نہ ہونے پائے۔
علماءِ عراق نے فخریہ فرمایا کہ ہم مراسیل کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔ شامی نے ابواب وصیت میں فرمایا کہ اگر کوئی آدمی اہلحدیث کے نام پر کوئی چیز وقف کرے، تو یہ وصیت حنفی طالب علموں کو بھی شامل ہو گی، کیونکہ یہ مرسل کو بھی حجت سمجھتے ہیں۔ (رد المختار: 3/565) اہلحدیث بننے کا شوق بڑا مبارک ہے اور وقف پر قبضہ بھی خوب! لیکن بحث تو یہ ہے کہ مرسل کو علی الاطلاق حدیث کہنا درست ہے؟ امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’الرسالة‘‘ میں یہ بحث مفصل ذکر فرمائی ہے۔ (الرسالة: 462) اور واضح فرمایا ہے کہ مرسل کو حدیث کہنا یا سمجھنا کہاں تک درست ہے۔ کل ممکن ہے کوئی عالم زور بیان میں یہ فرما دیں کہ اصل اہل حدیث ہم ہیں، کیونکہ ہم موضوع احادیث کو بھی مانتے ہیں، تو ہم ان بزرگوں کا کیا بگاڑ سکتے ہیں؟!
صورت جو بھی ہو، ان وجوہ کی بنا پر محدثین اور ائمہ سنت کا یہ خطرہ ایک حقیقت معلوم ہوتا ہے، اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ ان فتوؤں کی زد اور نقصان سے بچنے کے لیے کچھ پابندیاں عائد کی جائیں، تاکہ نقل احادیث میں علماء کی طغیانیاں اصل مقصد کو بہا کر نہ لے جائیں اور مراسیل، مقطوعات کی آڑ میں موضوع اور مختلق چیزیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جائیں، اس لیے اس حفاظتی تصور کا نام علم درایت رکھا گیا اور زیادہ تر اس کا انحصار لغت اور علوم لسانیہ پر رکھا گیا، تاکہ روایت کا مفہوم صحیح طور پر آگے منتقل ہو۔ مراسیل کی طرح کوئی غلط اور غیر یقینی نوشتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت نہ پا جائے۔
فقہ راوی:
جن مقاصد کے لیے بعض اہل علم نے درایت کی ضرورت کو محسوس فرمایا، انہی مقاصد کے لیے فقہاءِ عراق نے فقہ راوی کی قید لگائی، تاکہ نصوص کا مفہوم صحیح ادا ہو اور روایت بالمعنی میں اس سے مدد مل سکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی صحیح تعبیر مخاطب تک پہنچ سکے۔ گو درایت اور فقہ کے مصطلح مفہوم میں فرق ہے، لیکن مفہوم کے ادا میں ان دونوں ذرائع سے استفادہ کیا جا سکتا ہے اور یہ واقع میں صحیح بھی ہے اور ضروری بھی، لیکن ائمہ حدیث اور فقہاء محدثین اس قسم کی قیود سے بے نیاز
|