Maktaba Wahhabi

250 - 676
’’وهذه منة عظيمة من المصنف رحمه اللّٰه تعاليٰ علي رقاب الناس و علينا أنه يستعمل القرآن في كل موضع ممكن، وإن لم يكن راضيا عن إمامنا الأعظم رحمه اللّٰه تعاليٰ، و أري جماعة من أصحاب محمد و أبي يوسف رحمهما اللّٰه تعاليٰ يروي عنها المصنف رحمه اللّٰه في كتابه، ثم لم تخرج منقبة عن قلمه للأئمة الثلاثة، فيا للعجب!‘‘ (فيض الباري: 1/7) یعنی مصنف (امام بخاری) کا ہم پر اور عامۃ المسلمین پر بہت بڑا احسان ہے کہ وہ حسب امکان آیات کا ذکر فرماتے ہیں، گو وہ ہمارے امام اعظم سے خوش نہیں، اور میرا خیال ہے کہ امام بخاری امام محمد اور ابو یوسف کے تلامذہ سے روایت فرماتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان کے قلم سے ان تین بزرگوں کے متعلق کوئی تعریف کا کلمہ نہیں نکلا، تعجب ہے!! فقہ الحدیث اور فقہ الرای: فقہ الحدیث اور فقہ الرای، جیسا کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے ’’حجة اللّٰه ‘‘ میں فرمایا، [1] دو الگ الگ طریقِ فکر ہیں۔ یہ دونوں اپنے اپنے طریق پر دین کی خدمت کی مختلف راہیں ہے، جو بہرحال مختلف ہیں۔ اس لیے امام بخاری اور ائمہ حدیث نے فقہاءِ کوفہ رحمہم اللہ کے متعلق جو راہ اختیار فرمائی ہے، اس سے زیادہ کی توقع رکھنا کوئی اچھی اور قابل تعریف امید نہیں اور نہ ہی یہ شکوہ کچھ معقول ہے، ہم نے یہ حوالہ ’’تعرف الأشياء بأضدادها‘‘[2]کے اصول پر نقل کیا ہے، تاکہ امام بخاری اور ائمہ حدیث کا مسلک متعدد وجوہ سے ظاہر ہو جائے، ورنہ یہ عبارت بالکل بے جوڑ ہے۔ فیض الباری حضرت شاہ صاحب کے امالی (لکھوائے ہوئے شذرے) ہیں، جن پر محنت فرما کر مولانا بدر عالم نے شائع فرمایا۔ مولانا کے اعتبار پر اس عبارت کی نسبت شاہ صاحب رحمہ اللہ کی طرف کی جا رہی ہے، ورنہ ایسی بے جوڑ عبارت کی نسبت شاہ صاحب کی طرف کرنے کو ذہن ابا کرتا ہے۔ غور فرمائیے:
Flag Counter