ایک فاضل جج کی غلط فہمیوں پر مبنی تنقیحات اور ان پر ایک نظر
حدیث کی تحقیق موجودہ دور میں:
مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جج میاں محمد شفیع صاحب فرماتے ہیں:
’’میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ محدثین کی جمع کردہ احادیث کو اسلامی قانون کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ تسلیم کر لیا جائے۔ جب تک اس کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ کی جائے، اور یہ پڑتال بھی کسی تنگ نظری یا تعصب پر مبنی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ان تمام قواعد و شرائط کو بھی ازسرِنو استعمال کیا جانا چاہیے جنہیں امام بخاری وغیرہ نے بے شمار جھوٹی، موضوع اور جعلی حدیثوں میں سے صحیح احادیث کو الگ کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ نیز اُن معیارات کو بھی کام میں لانا چاہیے جو نئے حقائق و تجربات نے ہمارے لیے فراہم کیے۔‘‘ (بحوالہ منصب رسالت نمبر، ص: 672 رسالہ ترجمان القرآن لاہور)
احادیث کو نئے انداز پر پرکھا جائے۔ یہ آواز مدت سے زبان و قلم کی نوازش کے بعد سامعہ نواز ہو رہی ہے۔ قریب قریب پچاس سال کا عرصہ ان گرجتے بادلوں پر گزرا ہے اور یہ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ ’’حدیث کو نئے اصول کی روشنی میں تنقید کی سان پر رکھنا چاہیے۔‘‘
یورپ کے مکتشفین کے کارخانوں میں احادیث کی تنقید کے لیے ہتھیار بن رہے ہیں۔ ہم نصف صدی سے ان کے منتظر ہیں لیکن یہ بادل برستے نہیں۔ تاحال ہم نے کوئی نیا ہتھیار نہیں دیکھا۔ ہمیں یہ بتلایا گیا کہ حدیث قرآن کے خلاف نہیں ہونی چاہیے۔ عرض کیا منظور ہے، لیکن قرآن کے مفہوم کی صحت کے لیے بھی معیار لائیے، ممکن ہے آپ کو پرکھنے کی تکلیف ہی نہ ہو۔ پھر یہ اصول قدماء ائمہ حدیث کے ہاں کتبِ حدیث میں موجود ہے یا نہیں۔ مشکل صرف یہ ہے کہ آپ کے ہاں
|