Maktaba Wahhabi

328 - 676
فقہ راوی: دوسرے مقام پر شاہ صاحب نے فرمایا: ’’محققین کی یہ پختہ رائے ہے کہ عدل اور ضبط کے بعد راوی کے لیے فقہ کی شرط یہ صرف عیسیٰ بن ابان کا مذہب ہے اور بہت سے متاخرین بھی اس میں ان کے ساتھ ہیں۔ امام کرخی ان کے خلاف ہیں اور قدماءِ احناف سے بھی یہ مذہب منقول نہیں۔ ان کی رائے ہے کہ حدیث بہرحال مقدم ہے۔‘‘ (حجة اللّٰه : 1/161) غرض رائے اور قیاس کی دھاندلی متاخرین میں ہے۔ یہ قدماء میں نہ تھی۔ قدماء کی اس احتیاط کے باوجود ائمہ حدیث نہ متقدمین کی روش پر مطمئن تھے نہ متاخرین کے طریق پر، یہ حضرات دونوں جگہ حدیث اور سنت کے صافی چشموں کو مکدر پاتے تھے۔ شعبی فرماتے ہیں: ’’لقد بغض إلي هٰولاء الآرائيون المسجد حتي إنه لأبغض إلي من كناسة داري، قالوا: من هم؟ قال: الحكم و حماد و أصحابه‘‘ (مختصر بيان العلم ابن عبدالبر: 2/146، القول المفيد للشوكاني، ص: 77) جو لوگ اس وقت اس محتاط روش پر مطمئن نہیں وہ آج کل نیچر پرستی پر کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں؟ آج کے اہلِ حدیث حضرات سب کچھ دیکھتے ہیں اور ان کی سلفیت پر کوئی آنچ نہیں آتی۔ أكل امريء تحسبين امرءا و نار توقد بالليل نارا [1] ہمیں یقیناً معلوم ہے کہ ائمہ اربعہ حدیث کو حجت مانتے ہیں۔ اسے دین کا ماخذ سمجھتے ہیں اور اسی تعریف سے حجت سمجھتے ہیں جو ائمہ سنت اور عامۃ المسلمین میں مسلّم ہے اور ایک دوسرے کو مسلمان سمجھنے کے باوجود اہلِ حدیث کو احناف، شوافع، موالک اور حنابلہ کی فقہیات سے اختلاف ہے۔ وہ ان سکول ہائے فکر میں حدیث اور سنت کی تقدیس کو اس قدر محترم اور محفوظ نہیں سمجھتے جس قدر اہلِ حدیث اور سلفی سکولِ فکر میں اسے محترم اور محفوظ پاتے ہیں۔
Flag Counter