اسی کی بنیاد پر فروع اور اصول تخریج کیے گئے۔ بعض جگہ صریح احادیث کی بھی بعید از کار تاویلات کی گئیں۔ عینی شرح کنز میں نکاحِ حلالہ کے لیے افادہ تحلیل کا ذکر فرما کر حدیث ((لَعَنَ اللّٰه الْمُحَلِّلَ وَالْمُحَلَّلَ لَهُ)) [1]کی تاویل اس طرح فرمائی گئی:
’’لعله أراد باللعنة الرحمة‘‘ (عيني بر حاشيه كنز كشوري)
یعنی حدیث میں لعنت سے شاید رحمت مراد ہو۔ غرض متاخرین کی تصانیف میں اعتزال کو کافی دخل ہو گیا۔ اصولِ فقہ میں سب سے پہلی تصنیف امام شافعی رحمہ اللہ نے کی:
’’أول من صنف فيه الإمام الشافعي‘‘ (كشف الظنون: 1/89)
اس کے بعد جب اصولِ فقہ فن کی صورت میں مدون کیا گیا تو اس میں اہلِ حدیث اور معتزلہ نے بہت کچھ لکھا:
’’و أكثر التصانيف في أصول الفقه لأهل الإعتزال المخالفين لنا في الأصول، ولأهل الحديث المخالفين لنا في الفروغ‘‘ (كشف الظنون: 1/89، أبجد العلوم: 2/325)
’’اصولِ فقہ میں معتزلہ نے زیادہ کام کیا، وہ اصول اور عقائد میں ہمارے مخالف ہیں، یا پھر اہلِ حدیث نے تصانیف کیں، وہ فروع میں ہم سے مختلف ہیں۔‘‘
معتزلہ کا اثر عقائد میں تو تھا ہی، فقہیات بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکے:
’’بعضهم يزعم أن بناء المذهب علي هٰذه المحاورات الجدلية المذكورة في مبسوط السرخي و الهداية والتبيين و نحو ذلك ولا يعلمون أن أول من أظهر ذلك فيهم المعتزلة وليس عليه بناء مذهبهم‘‘ (حجة اللّٰه : 1/160)
’’بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہدایہ، تبیین، مبسوط سرخسی میں جو جدلی مباحثات پائے جاتے ہیں، حنفی مذہب کی بنا ان پر ہے۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہ معتزلہ کی مہربانی ہے۔ حنفی مذہب ان پر مبنی نہیں۔‘‘
غرض دوسرے دور میں فروع اس سے متاثر ہوئے اور عقائد کے بعد اعمال پر اس کا اثر پڑا۔
|