Maktaba Wahhabi

448 - 676
مشقت سے نفرت کرتے ہیں، البتہ عجمی اہل علم کی یہ لوگ عزت کرتے رہے، کیونکہ وہ علم دین کے حامل اور خادم تھے۔‘‘ آخر میں فرمایا: ’’فهذا الذي قررناه هو السبب في أن حملة الشريعة عامتهم من العجم‘‘ (مقدمه، ص: 501) ’’ہماری اس تقریر سے ظاہر ہے کہ حاملین شریعت عام طور پر عجمی تھے۔‘‘ اسی طرح عقلی علوم بھی زیادہ تر عجمیوں میں ہی رہے اور جب تک اہل عجم میں حضریت موجود رہی، وہ عقلی اور نقلی علوم کی خدمت کرتے رہے۔ جب عجمیوں میں بدویت آ گئی اور حضریت نے ان کو جواب دے دیا، ان سے بھی بالکل یہ علم جاتا رہا اور علم ان شہروں میں چلا گیا جہاں حضریت پائی جاتی تھی، جیسے مصر۔ یہ حضریت کے لحاظ سے آج کل دنیا کی جڑ ہے۔ ماوراء النہر میں تھوڑی بہت حضریت موجود ہے، اس انداز سے وہاں بھی علوم کی خدمت کا جذبہ موجود ہے، چنانچہ علامہ سعد الدین تفتازانی کے سوا ہمیں وہاں کسی محقق عالم کی اطلاع نہیں ملی۔ (مقدمه ابن خلدون، ص: 499 تا 502) مولانا ناگی اور اہل قرآن حضرات سے: دونوں جواب آپ کے سامنے ہیں۔ مقدمہ ابن خلدون کا میں نے آزاد ترجمہ کیا ہے، مناسب ہو گا آپ حضرات اصل کتاب پر بھی ایک نظر ڈال لیں، اسی سے علم اور جہل میں آپ توازن فرما سکیں گے۔ آپ محسوس فرمائیں گے کہ علم کی ذمہ داریاں کس قدر گراں ہیں، لاعلمی کتنی جلدی آوارگی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ (1) ابن خلدون نے تاریخ سازی نہیں کی، بلکہ ثابت شدہ حوادث اور واقعات میں تطبیق دی ہے۔ (2) اس میں سلف کا اعزاز اور امت کے جذبات کا شکریہ آمیز اعتراف ہے۔ (3) ملوک عرب کی طرف سے معذرت ہے اور قدرتی تقسیم کار کا اظہار۔ (4) اس سے علوم خصوصاً علم حدیث کا تدریجی اور طبعی ارتقاء معلوم ہوتا ہے اور اہل علم کا خلوص۔ دوسرے جواب کے متعلق میرا احساس: حضرات اہل قرآن کے جواب کے متعلق میرے احساسات یہ ہیں:
Flag Counter