اور ضوابط منضبط فرما کر اسے آنے والی قوموں کے لیے ایک فن بنا دیا۔
اسی طرح ائمہ حدیث کی اکثریت عجمی تھی یا مستعجم۔ ابن خلدون فرماتے ہیں:
’’ وكذا حملة الحديث الذين حفظوه علي أهل الإسلام، أكثرهم عجم أو مستعجمون باللغة والمربيٰ، وكان علماء أصول الفقه كلهم عجما كما عرف، وكذا حملة علم الكلام، وكذا أكثر المفسرين، ولم يقم بحفظ العلم و تدوينه إلا الأعاجم ‘‘ (مقدمه، ص: 500)
’’ائمہ حدیث اکثر عجمی تھے، یا لغت اور رہائش کے لحاظ سے وہ عجمی تھے۔ علماء اصول فقہ کلہم عجمی تھے، ائمہ کلام کل عجمی تھے، اسی طرح اکثر ائمہ تفسیر عجمی تھے۔‘‘
غرض علوم کے حفظ و تدوین میں عجمی حضرات کے سوا کوئی آگے نہیں آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری طرح سچی ہو گئی کہ
’’اگر علم آسمان کے کناروں سے بھی متعلق ہو، تو اہل فارس اس پر قابض ہو جائیں گے۔‘‘ [1]
اور حسب ارشاد مولانا ناگی علم کی دنیا میں عجمیت کا جال بچھ گیا۔ اس کے بعد فرماتے ہیں:
’’أما العرب الذين أدركوا هذه الحضارة و سوقها، وخرجو إليها من البداوة فشغلتهم الرياسة في الدولة العباسية، وما دفعوا إليه من القيام بالعلم والنظر فيه، فإنهم كانوا أهل الدولة و حاميتها، و أولي سياستها مع ما يلحقهم من الأنفة عن انتحال العلم حينئذ بما صار من جملة الصنائع، والرؤساء أبدا يستنكفون عن الصنائع والمهن، وما يجر إليها، ودفعوا ذلك إلي من قام به من العجم والمولدين، وما زالوا يرون لهم حق القيام به، فإنه دينهم وعلومهم، ولا يحتقرون حملتها كل الاحتقار ۔۔ الخ‘‘ (مقدمه، ص: 500)
’’عربوں سے جن لوگوں نے عباسی دور میں اس حضریت اور شہریت کو پایا اور بدویت کو چھوڑا، وہ آتے ہی ریاست کی ذمہ داریوں میں پھنس گئے۔ سیاسی مشاغل کی وجہ سے علم و دانش کا مشغلہ اختیار نہ فرما سکے۔ ویسے بھی رئیس اور سیاست دان صنعت و حرفت اور
|