Maktaba Wahhabi

96 - 676
(2) ﴿إِن نَّظُنُّ إِلَّا ظَنًّا وَمَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِينَ﴾ (الجاثیہ: 32) ’’ہمارا خیال ہے، یقین نہیں۔‘‘ (3) ﴿إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ﴾ (النجم: 32) ’’یہ لوگ ظن اور ہوائے نفس کے تابع ہیں۔‘‘ غلطی کی اصل وجہ: غلطی کی اصل وجہ ظن کا پنجابی زبان میں استعمال ہے اور ان حضرات کی عربی اور اس کے محاورات سے ناواقفیت۔ ائمہ حدیث کی نظر میں ظنیت اس معنی سے ہے کہ حدیث کی صحت عقلی دلائل سے ثابت ہے، عینی اور سمعی چیز نہیں، بلکہ ائمہ حدیث نے رجال کے احوال اور قرائن سے استدلال فرما کر بحث و نظر، عقل اور شعور سے احادیث کی صحت اور حجیت کو ثابت فرمایا ہے۔ یہ ایسی چیز نہیں جسے نظر سے دیکھا جائے یا کانوں سے سنا جائے، بلکہ یہ علم و یقین عینی اور سمعی علم و یقین سے دوسرے مرتبہ پر ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو چیزیں ہماری نظر کے سامنے ہیں یا ہم کانوں سے سنتے ہیں، ان کا ہمیں یقین اور علم تو ہو جاتا ہے، لیکن قطعیت وہاں بھی محل نظر ہے۔ ستاروں کے حجم میں نظر کا فیصلہ درست نہیں۔ مرئیات اور اشباح میں نظر کی غلطی مسلمہ حقیقت ہے، حالانکہ وہ اشیاء ہماری نظر کے سامنے ہیں۔ پہاڑوں کے سربہ فلک درخت جو بیسیوں گز فضا میں چلے گئے ہیں، دور سے جھاڑیاں محسوس ہوتے ہیں۔ جب عین الیقین یا علم بالعیان میں بھی غلطی کی گنجائش ہے تو قطعیت کا وجود دنیا میں نادر ہی معلوم ہوتا ہے۔ منکرین حدیث کے لیے دو راہیں رہ جاتی ہیں: یا عام بنی آدم کی طرح ظنیات کو اخبار اور احکام میں بھی قبول کریں یا پھر کسی ایسی دنیا میں چلے جائیں جہاں انہیں ظنیات سے سابقہ نہ پڑے اور ان کا ماحول جزم و یقین سے بھرپور ہو۔ متواتر احادیث شاید سینکڑوں مل جائیں، مگر قطعیات کا وجود اس دنیا میں بے حد کم ہے۔ شریعت اسلامیہ میں ظن کی اہمیت: عام دنیا کو جانے دیجیے، شریعت میں مظنون چیزوں کو استناد کا مرتبہ دیا گیا ہے۔ محکمہ قضا شرعی
Flag Counter