نے ان کو توفیق دی، اسی طرح حفاظِ حدیث کو اللہ تعالیٰ نے توفیق مرحمت فرمائی کہ وہ اس کی حفاظت فرما سکیں۔ اجماعِ امت میں ہر فرد معصوم نہیں، لیکن بحیثیت مجموعی اجماع میں مجتہدین کو عصمت کا مقام حاصل ہو جاتا ہے۔ تلقی بالقبول میں بھی یہی صورت ہے۔ اگر حدیث دین ہے تو اس کی حفاظت کا ذمہ دار حق تعالیٰ کو ہونا چاہیے۔ یہ حفاظت، حفاظِ حدیث ہی کی معرفت سے ہوئی ہے، اس لیے مجموعی حفاظت اور اجتماعی عصمت سے ان کو یقیناً حصہ ملا ہے۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اگر اس سے کوئی چیز ضائع ہو چکی ہے تو اس کی ضرورت نہ تھی اور جس چیز کی ضرورت تھی اسے محفوظ رکھنے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو عطا فرمائی۔ ﴿ ذَٰلِكَ فَضْلُ اللّٰه يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَاللّٰه ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ﴾ (الحدید: 21)
حدیث کو تنقیدی نگاہ سے پڑھنے کا مطلب:
اس عنوان کے تحت مولانا نے فرمایا ہے کہ ہر حدیث پر تنقید ضروری نہیں:
’’تنقید کی ضرورت وہاں پیش آتی ہے جہاں کوئی ایسی حدیث آ جاتی ہے جو سنتے ہی طبیعت کو کھٹکتی ہے، جو دین کے مسلمات اور شریعت کے معروفات کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جس کو عقل عام قبول کرنے سے اول وہلہ میں ابا کرتی ہے۔‘‘ الخ
اس ضمن میں مثال کے طور پر مولانا نے تین احادیث کا ذکر فرمایا ہے:
(1) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تین مرتبہ جھوٹ بولنے کی روایت۔
(2) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کی آیت کے ساتھ ’’تلك الغرانيق العلٰي‘‘ کے الفاظ پڑھ دینے کی روایت۔
(3) یا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ملک الموت کو تھپڑ مارنے کی روایت۔
مولانا نے جو فرمایا ایک حد تک مناسب ہے، لیکن مولانا ہر ناپسندیدہ مقام پر بچارے اہلِ ظاہر کا ذکر فرما دیتے ہیں، شاید اس لیے کہ اس طریقِ فکر کا ہمارے ملک میں کوئی موید نہیں۔ جہاں تک اہلِ ظاہر کی کتابوں کا تعلق ہے ان میں یہ چیز موجود نہیں، جسے مولانا اہلِ ظاہر کی طرف منسوب فرما رہے ہیں۔ اہلِ ظاہر سے بعض مقامات پر لغزش ہوئی ہے، لیکن وہ اتنے گئے گزرے نہیں جس طرح جناب کے ارشاد سے ظاہر ہوتا ہے۔ ظاہری سکولِ فکر کے دو بزرگ عام طور پر مشہور ہیں: ابنِ حزم
|