Maktaba Wahhabi

560 - 676
ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کے لکھنے سے روکا۔ اس کے مختلف وجوہ تھے: (1) قرآن سے بے توجہی نہ ہو۔ (2) نظم قرآن میں خلط نہ ہو۔ (3) یہودی اور مسیحی نوشتے دینی نصوص کے ساتھ خلط نہ ہو جائیں۔ اس کے علاوہ اور بھی وجوہ ہیں، جن کا تذکرہ ابن عبدالبر نے جامع میں اور دوسرے ائمہ حدیث نے بھی فرمایا ہے۔ [1]اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریر کی اجازت دی، صحابہ نے یادداشتیں لکھیں، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ’’صادقہ‘‘ لکھا، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس احادیث کا ایک ذخیرہ تھا، مقادیرِ زکوٰۃ، نصابِ زکوۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریر سے موجود تھا۔ نماز، روزہ، حج تواتر سے ثابت ہو چکے۔ اذکارِ نماز آپ کی سنت مصطلحہ سے ثابت ہیں، بلکہ جو اختلافات آپ حضرات کے لیے اضطراب کا سبب ہیں، وہ اختلافات بھی آپ کی اصطلاحی سنت میں آ جاتے ہیں۔ یعنی نماز بایں اختلافات زمانہ عمر رضی اللہ عنہ میں موجود تھی۔ کتابت کی ممانعت: جہاں تک تحریر سے نہی کا خلجان تھا، وہ اس اجازت سے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ شبہ تو باقی نہیں رہتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روکنے کے بعد کیوں لکھا گیا؟ اب یہ ذخیرہ کتنا تھا: تھوڑا تھا یا زیادہ؟ یہ کوئی اساسی سوال نہیں۔ آپ حضرات کو حدیث پر اعتراض ہے کہ اس کی حفاظت کے لیے خدا تعالیٰ کا وعدہ نہیں۔ جو کچھ ہوا، وہ انسانی کوشش ہے۔ (اس شبہ کا مفصل تذکرہ آگے آئے گا) اگر ساری حدیث لکھ لی جاتی، حفاظِ قرآن کی طرح حافظ اس کا دور کرتے، تراویح پڑھی جاتی، تو پھر بھی یہ انسانی کوشش تھی اور آپ کا شبہ بدستور قائم رہتا۔ کتابت میں غلطیاں ہوتیں، کاتب انسان ہوتے، پھر بھی انسانوں کا عذر آپ حضرات کے لیے اضطراب کا سبب ہوتا۔ حدیث حفظ ہوتی، حافظ دور کرتے، پھر بھی یہ حافظ انسان ہوتے اور آپ کی یہ بے قراریاں اور غم گساریاں بدستور قائم رہتیں۔ ہم اس ذخیرہ کو علی علاتہ (خامیوں کے باوجود) قبول کرتے ہیں، اس لیے انسانی استطاعت سے جو ہو سکتا تھا، ہو چکا۔
Flag Counter