9۔ محمد بن اسماعیل بخاری 256ھ
9۔ ابو ہاشم عبدالسلام الجبائی 321ھ
10۔ امام ترمذی 275ھ
10۔ ابو القاسم محمود بن عمر الزمخشری 528ھ
11۔ امام احمد بن شعیب النسائی 303ھ
مذکورہ فہرست میں ائمہ حدیث اور ان کے مخالفین سے چند سر کردہ شخصیتوں کے نام لکھے گئے ہیں۔ علامہ جار اللہ زمخشري کے علاوہ باقی سب حضرات چوتھی صدی کے آغاز تک اپنے اپنے طریق پر علمی خدمات انجام دیتے رہے۔ ائمہ حدیث جمع و تدوین میں مشغول رہے اور مختلف طریقوں سے فن کی خدمت انجام دیتے رہے، دوسرے اعتزال اور جہمیہ سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔ زمخشري چھٹی صدی کے آدمی ہیں، لیکن علم و فضل کے لحاظ سے اختلاف کے باوجود اہل سنت اور معتزلہ دونوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
ان تمام حضرات نے حدیث کی مخالفت کی، اپنی عقلیات کے بالمقابل حدیث کو نظر انداز کیا، اس فن پر مختلف قسم کے اعتراضات کیے، مگر ان کی تصانیف میں اس عجمی سازش کا کہیں پتہ نہیں چلتا، جس کی نشاندہی تمنا عمادی اور ان کے رفقاء کر رہے ہیں۔
مخالفین حدیث کی صف میں تین جابر بادشاہ ہیں، جن کی حکومت اقصیٰ مغرب سے اقصیٰ مشرق تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے مقدور بھر حدیث اور ائمہ حدیث کی مخالفت کی، اہل حدیث کو کوڑے لگائے، جیلوں میں ڈالا، زنجیروں میں جکڑا۔ اہل حدیث کی تاریخ کا یہ دور معصوم ائمہ حدیث کے خون سے رنگین ہے۔ امام احمد ایسے ائمہ حدیث ان کبراء کے مظالم کا تختہ مشق رہے ہیں۔ کسی نے قید کیا، کسی نے کوڑے لگوائے، کسی نے حقارت سے نظر انداز کر دیا۔
امراء کا جبر و استبداد:
خود ائمہ حدیث کے متعدد اصحاب، حکومت کے جبر و تشدد کے مقابلہ سے عاجز ہو گئے، لیکن خدمتِ حدیث سے دستبردار نہیں ہوئے۔ اس حالت میں بھی جس قدر علومِ حدیث کی خدمت کر سکتے تھے، سرانجام دیتے رہے اور حکومت کے تصادم سے گریز کرتے رہے۔
لیکن ائمہ حدیث میں ایسے اصحابِ عزیمت بھی تھے جو بے خطر آتشِ نمرود میں کود گئے اور بے نیاز ہو کر ظالم اور مستبد حکومتوں سے ٹکرا گئے۔ قید و بند کی صعوبتیں خندہ پیشانی سے جھیلیں،
|