لاکھ حدیث منقول ہے۔‘‘ متونِ حدیث مراد ہیں۔ میں نے کہا: ’’اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس سے مراد طرقِ حدیث ہیں۔‘‘
تدوینِ حدیث:
صحابہ چونکہ اصحاب واقعہ تھے، حدیث کی اکثر واردات کا تعلق ان سے ہے۔ قول، فعل اور تقریر کے اصل مہبط وہی ہیں، اور معلوم ہے کہ آپ بیتی چیزیں کم بھولتی ہیں، اس لیے ان کی توجہ کتابتِ حدیث کی طرف نہ تھی۔ صحابہ کے زمانہ میں تدوینِ حدیث بطور فن اور بصورت مشغلہ نہ تھی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات لکھنے کا رواج ضرور تھا، بلکہ بعض حضرات کی درخواست پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض احادیث خود لکھوا کر وہ یادداشت ان کو دے دی۔ [1] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط، معاہدات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھوائے گئے، جن کی خاصی تعداد ابن هشام، روض الأنف، الأموال لأبي عبيد، الخراج للقاضي أبي يوسف میں موجود ہے۔ [2] اسی طرح زکوٰۃ وغیرہ کے احکام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ضبط کیے گئے، تاہم صحابہ نے باقاعدہ تدوین کی ضرورت نہیں سمجھی، لیکن فصلِ خصومات میں حدیث کو قرآن ہی کی طرح سمجھا جاتا تھا۔ صحابہ کے سرمایہ میں ’’صادقه‘‘ (صحیفہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ) کے علاوہ بعض اور نوشتوں کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ملاحظہ ہو: الكفاية للخطيب (ص: 263 و 275)
’’عن عكرمة أن ابن عباس كان بحرا، فلما عمِي، أتاه ناس من أهل الطائف، ومعهم علم من علمه، أو كتب من كتبه فجعلوا يستقرؤنه، وجعل يقدم، و يؤخر، فلما رأي ذلك قال: إني تلهت من مصيبتي هذه، فمن كان عنده علم من علمي و كتب من كتبي فليقرأ علي، فإن إقراري له كقرأتي عليه فقرأوا عليه‘‘ (الكفاية للخطيب:263)
’’عکرمہ فرماتے ہیں: ابن عباس علم کے سمندر تھے۔ وہ آنکھوں سے معذور ہو گئے، تو
|