طائف کے کچھ لوگ ان کے پاس آئے۔ ان کے پاس حضرت ابن عباس کی کچھ کتابیں اور علم کا ذخیرہ تھا۔ انہوں نے حضرت ابن عباس سے پڑھنا شروع کیا، تو ابن عباس تقدیم و تاخیر کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابن عباس نے فرمایا: میں نابینگی کی وجہ سے حیران ہو گیا ہوں۔ جن حضرات کے پاس میری کتابیں ہیں، وہ مجھ پر پڑھ دیں۔ میری تصدیق کافی ہے، اس کے بعد میری قراءت کی ضرورت نہیں۔ (یاد رہے کہ سلف میں یہ رواج تھا کہ استاد شاگرد پر پڑھے۔)‘‘
اس اثر سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تصانیف تھیں۔
’’قال بشير بن نهيك: كنت أكتب بعض ما أسمع من حديث أبي هريرة، فلما أردت فراقه أتيته بالكتب فقرأتها عليه، فقلت: هذا سمعته منك؟ قال: نعم‘‘[1](الكفاية:275)
’’بشیر بن نہیک فرماتے ہیں: میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث سنا کرتا تھا۔ میں نے جب واپسی کا ارادہ کیا، تو میں نے ان پر وہ کتابیں پڑھیں اور عرض کیا: میں نے یہ کتابیں آپ سے پڑھی ہیں؟ تو انہوں نے کہا: ٹھیک ہے۔‘‘
جس سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس حدیث کی کتابیں تھیں۔ [2]
تابعین کے زمانہ میں آپ بیتی والے بزرگ جب ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگے، تو تدوین حدیث کی ضرورت ہوئی۔ دل غافل ہو سکتا ہے، حافظہ غلطی کر سکتا ہے، اس لیے قلم کی گرفت علم کی حفاظت کا ایک بہترین ذریعہ ہے، چنانچہ ائمہ نے اس طرف توجہ دی۔ جو کچھ صحابہ سے سنا تھا، اسے ضبط تحریر میں لے آئے۔ سب سے پہلی تصنیف عبدالملک بن جریج نے کی، اسی طرح امام مالک کی مؤطا مدینہ سے شائع ہوئی۔ بصرہ میں ربیع بن صبیح نے ایک کتاب تالیف فرمائی۔ دیگر
|