Maktaba Wahhabi

207 - 676
جن کو بمشکل یقینی کہا جا سکتا ہے، ورنہ پوری دنیا ظنیات سے آباد ہے۔ ’’دنیا بامید قائم‘‘ یہ محاورہ حقیقت حال کے لحاظ سے کتنا صحیح ہے۔ پھر حدیث کی ظنیت پر پہرے بٹھائے جا رہے ہیں۔ اس فنِ شریف کی ظنیت کی کیوں منادی کی جا رہی ہے؟ اس کا داعی صرف بغضِ سنت کا داعیہ ہی تو نہیں؟ علماءِ سنت کی انصاف پسندی ہے کہ انہوں نے اسناد کی مشکلات پر نظر رکھتے ہوئے احوالِ رجال میں امکانی شبہات کی بنا پر اس فن کی ظنیت کا کھلا اقرار کیا اور سنت کو کتاب اللہ کے بعد دوسرے مرتبہ پر رکھا، ورنہ ظن کی اس پہنائی پر نظر رکھتے ہوئے بلاشبہ اس کی ضرورت کتاب اللہ اور بدیہات سے کم نہیں اور اس ظن کا اعتماد ان چکڑالوی پسند یقینیات سے کہیں زیادہ ہے، جن کے وثوق پر ناز کیا جاتا ہے۔ یقین اور اس کے اسباب و دواعی کیا ہیں؟ حواس ظاہرہ کے محسوسات کو عموماً یقین سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن آپ نے کبھی تجربتاً دیکھا کہ ان محسوسات کے ادراکات میں کہاں تک غلطی کو دخل ہے؟ آنکھیں سورج اور چاند ستاروں کے حجم کے متعلق جو اندازہ کرتی ہیں، وہ حقیقت واقعیہ سے کس قدر مستبعد ہے؟ کان جو کچھ سنتے ہیں، اس میں غلطی کو کہاں تک دخل ہے؟ ذوق و حس پر جب اندرونی عناصر کے مخالفانہ حملہ سے مرض کی کیفیت طاری ہو، تو میٹھے کا کڑوا ہونا اور سخت کا نرم محسوس ہونا یا اس کے بالعکس سرے سے حس کا ناپید ہونا، اس یقین کے حلیہ کو کس قدر بگاڑ دیتا ہے؟ جب یقین کے اسباب کا یہ حال ہے، تو جو یقین ان سے پیدا ہو گا، وہ عام حالات میں کہاں تک قابل فخر ہے؟ علم حدیث جس میں خدائی حفاظت کے ساتھ انسانی مساعی کا جہاں تک اعتماد کیا جا سکتا تھا، اس کی پوری کوشش کی گئی، اس کے باوجود اسے ظن کا مقام دیا گیا اور اسے ظن سمجھ کر حجت تصور کیا گیا۔ انصاف و دیانت کی کتنی بڑی زندہ مثال ہے اور مقام حدیث کے تعین میں کس قدر صداقت سے کام لیا گیا ہے؟ ﴿فَمَا لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ﴾ (المدثر: 49)
Flag Counter