Maktaba Wahhabi

611 - 676
مولوی عبداللہ چکڑالوی سے پرویز صاحب تک اس سینہ زوری اور فن سے بے خبری میں سب برابر ہیں۔ ﴿فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ (النساء: 78) دس درایتی شبہات: عمادی صاحب کو ’’حدیث افک‘‘ بلحاظ درایت کی ’’تحقیق‘‘ میں خود بھی اپنی کمزوری کا احساس تھا۔ ان کا سارا مدار مصنوعی درایت پر تھا، لیکن عمادی صاحب کا شاہکار بھی تار عنکبوت سے کچھ زیادہ ہی کمزور معلوم ہوتا ہے۔ پہلا شبہ: افک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کا اہم واقعہ تھا۔ ان کو لڑائی کا نام کیسے یاد نہ رہا؟ انہوں نے ’’في غزوة غزاها‘‘ اپنے چاروں شاگردوں سے واقعہ بیان کیا۔ یہ ناممکن ہے۔ لہٰذا عمادی صاحب اس حدیث کو ’’موضوع‘‘ کہتے ہیں۔ ازالہ: یہ آپ کو کس نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ کا نام بھول گئی تھیں؟ کیا عدم ذکر عدم شے یا نسیان کو مستلزم ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے مختلف اوقات میں اپنے چار یا پانچ تلامذہ سے اس واقعہ کے بعض حصص حسبِ ضرورت یا حسب سوال ذکر فرمائے، جنہیں امام زہری رحمہ اللہ نے اپنے تلامذہ کی سہولت کے لیے یکجا مرتب فرما دیا۔ غزوہ کا نام یا مقام کی ضرورت نہ تلامذہ کو محسوس ہوئی، نہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا ذکر فرمایا۔ بھول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ درست ہے کہ غزوہ کے نام کا تذکرہ نہیں ہے۔ واقعہ کی کسی کڑی کے ذکر نہ کرنے سے پوری حدیث جھوٹی یا موضوع قرار پائے، عجیب درایت ہے۔ قوتِ فکر کے فقدان کی مثال اس سے بہتر شاید ہی ملے! آپ نے تیمّم کی حدیث میں، جسے آپ صحیح سمجھتے ہیں، خود تسلیم کیا ہے کہ ’’اس حدیث میں سفر کی تعیین نہیں، اس لیے کہ حالاتِ سفر بیان کرنا مقصود نہیں۔‘‘ (طلوع اسلام: 55) ٹھیک اسی طرح یہاں غزوہ کی تعیین مقصود نہ تھی۔ یہ عجیب منطق ہے، حدیث تیمّم میں سفر کا تعین نہ ہو، تو عمادی صاحب کے نزدیک صحیح، مگر
Flag Counter