[1]’’تعریضات جھوٹ سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔‘‘
زندگی کی مشکلات پر غور کر لیا جائے تو ہر انسان پر ایسے مواقع آتے ہیں، جن میں صاف بات کی بجائے تعریض ہی پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ دنیائے صداقت کو قائم رکھنے کے لیے اور جھوٹ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ تعریضات کی راہ کھلی رہے، جسے سائل نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وصفِ صدیقیت سے متعارض سمجھ کر صدیقیت کی راہ میں ضیق پیدا کر دی ہے۔ جس قانون میں لچک نہ ہو، وہ یقیناً ٹوٹ کر رہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: آپ کے رفیق کون ہیں؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: ’’ هَذَا الرَّجُلُ يَهْدِينِي السَّبِيلَ ‘‘ [2]1 یہ بزرگ میری راہنمائی فرماتے ہیں۔ کس قدر تعریض ہے؟ جو فرمایا، وہ بالکل سچ تھا، مگر خطرات کا بھی سدباب ہو گیا۔
تعریضات ہر زبان کے ادیبات عالیہ میں موجود ہیں۔ جس زبان میں تعریضات نہیں، وہ زبان نامکمل ہے اور لطافت سے خالی!
مولانا مودودی:
مجھے مولانا مودودی سے تعجب نہیں۔ وہ جب بھی علم کی ان متعارف راہوں سے گزرے، انہوں نے ٹھوکر کھائی۔ متعہ کا مسئلہ، مسلکِ اعتدال، حیاتِ مسیح، دجال وغیرہ میں ان کی جدت نوازیاں کامیاب ثابت نہیں ہوئیں۔ ان کے راہوار قلم کی جولانیوں کا میدان دوسرا ہے۔ تعجب مولانا آزاد اور امام رازی سے ہے۔ یہ جواب ’’راوی کو جھوٹا کہنا نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے۔‘‘ بے حد سطحی ہے۔
|