عجمی سازش کا فسانہ
سنت اور بدعت کا اختلاف بہت پرانا ہے، اہل بدعت کو ہر دور میں ائمہ حدیث سے ہمیشہ مخالفت رہی ہے۔ سنت اور بدعت کے درمیان کوئی ایسا مقام نہیں جہاں دونوں میں سمجھوتہ ہو سکے۔ اہل بدعت جس آزادی یا آوارگی سے اسلام کا آپریشن کرنا چاہتے ہیں، اس میں سب سے زیادہ مزاحمت ائمہ حدیث نے کی۔ اعتزال و تجہم کی بدعات سے شروع ہو کر قادیانیت اور پرویزیت تک اہل بدعت کی حیثیت ﴿ جُندٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُومٌ مِّنَ الْأَحْزَابِ﴾ (ص: 11) [1]کی رہی۔ صدیوں کی جنگ کے بعد بھی حدیث اور اس کے حامیوں میں اصول کی حد تک کوئی لچک ظاہر نہیں ہوئی، حالانکہ اہل بدعت نے اس لمبے سفر میں کئی پینترے بدلے۔
نیا ہتھیار:
منکرین سنت نے ایک نیا پینترا بدلا ہے۔ تاریخ کے چند صحیح واقعات سے غلط نتائج اخذ کر کے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ اسلامی فتوحات نے پہلی صدی کے آغاز میں اپنی مخالف طاقتوں کو مسل کر رکھ دیا تھا۔ نجد، شام، تہامہ، عراق وغیرہ ممالک کو سرنگوں کر دیا۔ ایران، روسی ترکستان اور فارس میں عجمی شہنشاہیت کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اسی طرح ہرقل اور اس کی معاون طاقتوں کو چند سالوں میں بے دست و پا کر دیا۔ ایسے حالات میں بعض سازشوں کا امکان ذہنی طور پر کچھ بعید نہیں۔ ایک عام ذہن جو اس وقت کی ذہنیت اور ماحول سے نا آشنا ہو اور آج کی ڈپلومیسی اس کے دماغ پر محیط ہو، آسانی سے اس نظریہ کو قبول کر سکتا ہے۔
تاریخ کا طالب علم:
تاریخ کا ایک طالب علم جس کا دماغ جذبات سے خالی ہو، وہ اسے آسانی سے قبول نہیں کرے گا۔ وہ سوچے گا کہ آیا یہ فتوحات عوام کی منشا کے خلاف تھیں؟ مسلمانوں کے اس استیلاء کو
|