Maktaba Wahhabi

285 - 676
مابہ النزاع مسئلہ جس پر گفتگو چل رہی ہے، اس سے حل نہیں ہو گا۔ جہاں تک میرا خیال ہے مولوی احمد دین امرتسری قریباً اسی نقطہ نگاہ سے اعمالِ متعارفہ اور معمول بہا سنن کا انکار نہیں کرتے تھے۔ اذان، نماز، نکاح میں اسی متعارف طریق پر عمل کرتے تھے۔ برہان القرآن اور ان کی تفسیر میں اس کا ذکر بار بار ملتا ہے، حالانکہ مولوی احمد دین مسلمہ طور پر منکرِ حدیث تھے۔ امید ہے مولانا اس طریقِ بحث پر نظرِ ثانی فرمائیں گے، کیونکہ اس انحراف سے اصل مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اثباتِ سنت کے طریقے: سنت کی تعریف کے بعد مولانا نے فرمایا کہ سنت چار طریق سے ثابت ہو سکتی ہے: (1) عملی تواتر۔ (2) اہل مدینہ کا تعامل۔ (3) خلفاء راشدین کا عمل۔ (4) آحاد۔ خبر متواتر اور تواترِ عملی میں بھی فرق ہے، مگر اس وقت اس بحث کی ضرورت نہیں۔ تواتر کی حجیت مسلم ہے، جو سنت تواتر سے ثابت ہو وہ بہرحال ثابت شدہ ہے، لیکن تواتر سے کس قدر سنن ثابت ہو سکیں گی؟ اس کا مختصر تذکرہ پہلے ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ہو گا۔ احادیث پر گفتگو سے قبل تعاملِ اہل مدینہ اور سنتِ خلفاء راشدین کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہم تک اسناد اور روایت کے ذریعہ سے ہی پہنچیں گی جن میں زیادہ تر آحاد ہیں، اس لیے اس کا مقام اخبارِ آحاد سے بھی فروتر ہونا چاہیے۔ آحاد کی ظنیت اگر شبہات کا سبب بن سکتی ہے تو یہاں بھی ظن ہی ظن ہے۔ مرفوع اور صحیح آحاد سے گھبرانا اور اہل مدینہ کے تعامل سے استدلال معقول معلوم نہیں ہوتا۔ ’’فرّ من المطر، و قام تحت الميزاب‘‘ والا معاملہ ہو جائے گا۔ مولانا نے اہل مدینہ کے کیس کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا کہ مدینہ منورہ تمام بڑے بڑے صحابہ رضی اللہ عنہم کا مرکز تھا۔ زندگی کے مختلف معاملات میں صحابہ جو کچھ کرتے تھے، امام رحمہ اللہ اسے سنت کا ہم مرتبہ سمجھتے ہیں، کیونکہ ایسے وقت میں صحابہ سنت سے کیونکر الگ ہو سکتے ہیں – الخ مختصراً۔ اور نتیجہ کے طور پر فرماتے ہیں: ’’میں مالکیہ کے اس نقطہ نظر کو قابلِ لحاظ سمجھتا ہوں۔‘‘ (1) موالک کی جس قدر کتابیں میری نظر سے گزری ہیں، وہ لوگ اہل مدینہ کے عمل کو سنت کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اثبات کے لیے صحیح راہ سند ہے، شہریت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ آج کل سند کے متعلق جن خطرات کا اظہار کیا جاتا ہے، اس
Flag Counter