ہوئی؟ اگر یہ دینی نظام ہے تو اسے خلافت یا امارت کہیے، اور اگر یہ فقہی کوشش ہے تو اسے اجتہاد کہیے۔ اسے ملت کی مرکزیت تو کسی طرح بھی میسر نہیں آ سکتی۔ محض اصطلاحات اور الفاط کی ہیرا پھیری سے ملت میں اختلاف کرنا ایک مجرمانہ کوشش ہے۔ ایسی قیادت کسی اعزاز کی مستحق نہیں جو محض اختلاف بین المسلمین کے سہارے پر زندہ ہے۔
اجتماعی اجتہاد:
مرکز ملت کا جو تاثر مختلف اوقات میں دیا گیا ہے، اس پر نہ ذہن مطمئن ہوتا ہے نہ ہی کوئی حقیقت ذہن میں اترتی ہے، البتہ اجتہاد کی اجتماعیت ذہن کو متاثر کرتی ہے۔ انفرادی حیثیت سے ممکن ہے اجتماعی طریق زیادہ مفید ثابت ہو۔ مختلف علوم کے ماہر اگر ایک جگہ سر جوڑ کر سوچیں تو غالب خیال ہے کہ مختلف مصالح اور اس کے بالمقابل مضرتوں پر زیادہ سنجیدگی سے غور ہو سکے، لیکن اگر اس کے ساتھ انتخاب کی پچر لگا دی گئی تو اس کی ساری افادیت ختم ہو جائے گی۔ بیچارے مجتہد یا الیکشن لڑیں گے یا اجتہاد کریں گے، اور اگر خدانخواستہ انتخابات کا انداز بھی یہی رہا جو انگریزی دورِ حکومت کی یادگار ہے تو حضرت المجتہد مع اجتہاد انتخابات میں رہن کی نظر ہو جائیں گے یا پھر باقی مدت قرض ادا کرتے رہیں گے اور رشوت لیتے رہیں گے۔
مختصر یہ کہ محض ایک مفروضہ کی حیثیت سے تو مرکز ملت کا ذکر سامعہ نواز ہو سکتا ہے۔ ورد وظیفہ کی طرح تبرکاً اس کا تذکرہ ہو سکتا ہے، لیکن عملی اور افادی لحاظ سے تو یہ بالکل بے کار چیز ہے۔ باعمل ذہن اس کا ذکر پسند نہیں کرے گا۔
سنت جیسے مفید اور مقدس علم سے انکار کے بعد مرکز ملت کا تصور ذہن کی ایک لغزش ہے اور ایک فکری نامرادی۔ سنت کو ظنی کہنے والے کن اوہام اور مزخرفات میں گرفتار ہوئے۔ یہ حضرات اتنا نہیں سوچ پائے کہ آخر اس مرکز کے فیصلوں کی حیثیت قرآن کی ہے یا متواتر احادیث کی یا پھر آحاد کی۔ ہمیں تو اوہام اور مزخرفات سے بھی اس کا مقام پست معلوم ہوتا ہے۔ عملاً اس کا اثر محض جدلیات ہوں گے جن پر کوئی نتیجہ مرتب نہیں ہو گا۔
|