کے اجتہادات جب شریعت اور دین نہیں بلکہ ان کے اجتہادات پر ہر زمانہ میں تنقید ہوتی رہی تو اس اجتہاد کو کیوں دین اور شریعت کا نام دیا جائے؟
(6) ظاہر ہے کہ اس مرکز ملت کے فیصلے دین نہیں ہوں گے اور آنے والے مرکز ملت کو لازماً ان مسائل سے تصادم اور اختلاف کا حق ہو گا، تو چند سال کے بعد اگر ان تمام مراکز ملت کی رودادِ عمل جمع کی جائے تو یہ مجموعہ ایک مضحکہ خیز چیز ہو گا اور آنے والے لوگ اس چوں چوں کے مربے کو کھلی حماقت تصور کریں گے۔
(7) غالباً اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ ہم نے کب اسے شریعت یا دین کہا ہے؟ کب کہا ہے کہ یہ لوگ اسے ضرور قبول کریں؟ تو ادباً گزارش ہے کہ اس میں جدت کیا ہوئی؟ سابق مجتہدین کی فقہ میں اور اس مرکز ملت کے فیصلوں میں فرق کیا ہوا؟ مجتہدین کے فیصلوں میں علمی عقیدت شامل تھی۔ یہاں وہ بھی ناپید ہو گی، صرف حکومت ہو گی جس کے طفیل یہ حضرات مرکز ملت کہلائیں گے۔ اگر یہ مادی قوت نہ ہو تو ان اجتہاد کی اتنی وقعت بھی نہیں جو قہوہ خانوں اور ہوٹلوں میں رونق کا موجب ہوتی ہے۔
(8) اس کے جواب میں حرف آخر کے طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ واقعی یہ مادی دباؤ ایک نظام کے لیے ہے، جس طرح ایک حکومت اپنے قوانین نافذ کرتی ہے یا بارگاہِ خلافت سے احکام کا نفاذ ہوتا ہے تو اس کے متعلق یہ گزارش ہے کہ ان دونوں میں بین فرق ہے۔ قانونی حکومت جمہوری ہو یا شخصی، اس کے احکام کی کوئی شرعی حیثیت نہیں، اور دینی حکومت اپنی مادی طاقت سے احکام کا نفاذ کرتی ہے۔ وہ بذاتِ خود احکام کی تخلیق نہیں کر سکتی، حتیٰ کہ پیغمبر اپنی اطاعت اور اپنی مستقل حیثیت کے باوجود اطاعتِ الٰہی کی ترجمانی کرتا ہے:
﴿مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰه ۖ﴾ (النساء: 80)
’’رسول کی اطاعت دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے۔‘‘
اس لحاظ سے یہ مرکز ملت ایک ایسی ذو الوجوہ مخلوق ہے جس کے خمیر میں نہ دین ہے نہ سیاست، اس کے باوجود وہ دونوں پر مسلط ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ؟
(9) پھر یہ بھی سوچنے کی چیز ہے کہ اس نئی اصطلاح سے حاصل کیا ہوا؟ اس نظام کی ضرورت کیوں
|