تھے۔ اسانید کے ضبط اور متون میں مختلف الفاظ کے حفظ و ادا سے ان کے طبائع میں ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جاتا تھا، جس کی وجہ سے وہ فنی لطافتوں کے علاوہ ذوقی طور پر سمجھتے تھے اور ہر صاحب فن کا اپنے فن میں یہی حال ہوتا ہے۔ وہ فن کی لطافتوں کو ذوق سے سمجھتے ہیں۔ معلوم ہے موجدین فنون نے فنون کتابوں سے نہیں پڑھے، ہاں ذوق کی سلامتی ان فنون کی ایجاد کا موجب ہوئی۔ اصول فقہ، اصول حدیث، معانی، بیان وغیرہ تمام فنون تصنیف و تالیف اور تدوین سے پہلے ذوق سلیم ہی کے مرہون تھے۔
لیکن حدیث جن لوگوں کا فن نہیں تھا، حفظ و ضبط میں ان کا انداز محدثانہ نہ تھا، ان حضرات نے ذوق کا کام ان فنون سے لیا اور پوری نیک دلی سے احادیث نبویہ اور ان کے مفاہیم اور مقاصد پر غور کیا، فجزاهم اللّٰه أحسن الجزاء۔ علماء اپنے اپنے انداز سے خدمت کرتے رہے اور ان اصول و قواعد کی راہ میں کوئی بے اعتدالی راہ نہ پا سکی۔
بے اعتدالی کا دور:
جب یونانی علوم نے اسلامی علوم پر یورش کی اور غیر مسلم اہل علم اسلام سے مانوس ہوئے۔ اسلامی علوم و عقائد ان کے خیالات و عقائد سے متصادم ہوئے، تو بے اعتدالی کی راہیں پیدا ہونا شروع ہوئیں۔ یہ اصطلاحات جن مقاصد کے لیے وضع کی گئی تھیں، ان کے بالکل خلاف استعمال ہونے لگیں۔ صفاتِ باری تعالیٰ کی تاویل کا نام تفقہ اور درایت رکھ لیا گیا اور ائمہ سنت کے خلاف ایک ہنگامہ برپا کر دیا گیا۔ حق گوئی کا نام حشویت، حرفیت، ظاہریت رکھ کر ان کو بدنام کیا گیا۔ ان کی بلا تاویل ساذج روش کو غیر فقہی کہہ کر ان کے خلاف بد اعتمادی کی فضا قائم کی گئی۔ فقہاءِ اسلام نے جن لوگوں کے لیے یہ اصطلاحات ایجاد کی تھیں، وہ بھی تاویل میں اس طغیانی اور تخریب عقائد میں اس اندھیر کے قائل نہ تھے۔
فلاسفہ اسلام اور متکلمین نے اپنے جدید افکار سے اسلام اور اس کے عقائد میں تشکیک پیدا کر دی۔ بجائے اس کے کہ درایت اور تفقہ سے روایت بالمعنی کی امکانی اغلاط سے بچا جاتا، تاویل سے بھی گزر کر تحریف کی سرحدوں کو عبور کرنا شروع کر دیا گیا۔ امام سرخسی (490ھ) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کے معلق ابن عباس اور یزید بن اصم کی دو معارض احادیث میں اپنے مسلک کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ یزید بن اصم
|