Maktaba Wahhabi

429 - 676
پر تیرے عہد سے پہلے تو یہ دستور نہ تھا مولانا! علمی مسائل میں علمی انداز سے گفتگو ہونی چاہیے۔ یہ عامیانہ انداز کسی دوسری محفل کے لیے بمد امانت رکھیے اور اپنے تمام رفقاء سے عرض فرمائیے کہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ گفتگو سے آپ کے وقار میں اضافہ نہیں ہو گا۔ انصاف سے خود ہی غور کیجیے کہ ’’ادارہ ثقافت‘‘ کے فضلاء، مسٹر غلام احمد پرویز اور ہمچو قسم کے حضرات کو ایسے مباحث میں دخل اندازی کا کوئی حق پہنچتا بھی ہے؟ آپ نے بارہا بازار سے کتابیں خریدی ہوں گی۔ آپ ضرورت کی کتابیں انتخاب فرما کر خریدتے ہیں، اس کے یہ معنی نہیں کہ باقی ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جائیں۔ یہی ذخائر ہیں، جس سے مسلم، ابو داود، ترمذی، ابن ماجہ اور نسائی رحمۃ اللہ علیہم نے اپنی شرائط اور فہم کے مطابق انتخاب فرمایا۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ سائل محترم آئندہ قلم اٹھاتے وقت اپنی علمی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھیں گے۔ تدوینِ حدیث اور تاریخی لغزش: فن حدیث تدریجی ارتقاء سے ان مراحل تک پہنچا، جہاں وہ آج ہے۔ اس وقت ان مراحل کی تفصیل پیش نظر نہیں، صرف یہ گزارش کرنا مطلوب ہے کہ تدوین کا وقت کون سا ہے؟ تدوین حدیث کی باضابطہ بنیاد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ (م 101ھ) نے رکھی۔ ان کے حکم سے ابوبکر بن حزم رحمہ اللہ (م 117ھ) نے بحیثیت گورنر اس کا انتظام فرمایا، جس کی تعمیل ابن شہاب زہری رحمہ اللہ (م 125ھ) نے فرمائی۔ امام زہری رحمہ اللہ کے تتبع میں دوسرے ائمہ حدیث نے احادیث جمع کرنے کی طرف توجہ فرمائی اور تمام ذخائر، جو صحابہ اور کبار تابعین نے مذكّرات کی صورت میں اپنے اپنے وقت میں جمع فرمائے تھے، انہیں اپنے ذوق کے مطابق کتابوں کی صورت میں تدوین کرنا شروع کیا۔ [1] سائل محترم کو افسوس ہے کہ کتب صحاح صحابہ یا تابعین کی سرپرستی میں کیوں نہیں لکھی گئیں؟ عباسیوں کی نیم عجمی حکومت میں سنت کے یہ ذخائر کیوں تصنیف ہوئے؟ مگر مجھے افسوس ہے کہ تاریخی طور پر اس ’’افسوس‘‘ کے لیے کوئی معقول وجہ معلوم نہیں ہوتی۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ ان
Flag Counter