امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق مولانا کا یہ فیصلہ کہ
’’انہوں نے انتخاب کے بعد باقی احادیث کو رد کر دیا۔ انہیں (امام بخاری) یہ حق حاصل تھا کہ اپنے شخصی فیصلے کے مطابق لاکھوں حدیثوں کو رد کر دیں؟‘‘ (طلوع اسلام: 76 جولائی 57ھ)
بڑی جرأت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری نے اپنے ’’شخصی فیصلے‘‘ سے ایک حدیث کو بھی رد نہیں کیا، نہ ہی وہ اس کے مجاز ہیں، بلکہ اہل علم کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں یہ فیصلے کیے گئے۔ وہ اصول آج بھی موجود ہیں، جن کا ماخذ کتاب اللہ اور سنت ہے اور آج بھی ان اصولوں کی روشنی میں کسی کو جرأت ہے، تو فن حدیث اس کے لیے تیار ہے ؎
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
لیکن ہر نا تراشیدہ ذہن کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ طے شدہ صحیح احادیث پر خط تنسیخ کھینچنا شروع کر دے۔ اس قتل عام کی اجازت ان شاء اللہ قیامت تک نہیں دی جائے گی۔ ﴿وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ﴾ (الأنفال: 8)
اور یہ حدیث پر کیا موقوف ہے، کسی فن میں بھی ہر آدمی کو محاکمہ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پھر صحیح بخاری کے رد یا قبول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بہت سی کتابیں لکھیں، صحیح بخاری کی احادیث کے انتخاب اور اندراج میں انہوں نے ذہن میں کچھ خاص شرائط رکھیں، ان شرائط کو نگاہ میں رکھ کر منتخب احادیث کو بخاری میں درج فرمایا اور جو احادیث ان شرائط کے مطابق نہیں تھیں، انہیں اس کتاب میں درج نہیں فرمایا۔ سائل محترم نے بڑی جرأت فرمائی، لیکن یہ خیال نہ رہا کہ انتخاب کا نام رد کر دینا نہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ضرورت کی چیز لے لی گئی۔ یہ کس مسخرے نے آپ کو کہا کہ باقی احادیث امام بخاری نے رد کر دیں؟ جزء القراءة، جزء رفع اليدين، الأدب المفرد، تاريخ صغير، تاريخ كبير وغیرہ کتب [1] اسی غیر منتخب ذخیرہ سے ماخوذ ہیں۔ مولانا! یہ جرأت۔۔؟!
|