بھر شاہی درباوں سے بھاگتے رہے۔ جب ان کو سازش کے بغیر بھی حکومت مل سکتی تھی، تو سازش سے کیا فائدہ؟ ہارون رشید اور امام مالک، منصور اور امام ابو حنیفہ، امام احمد اور خلیفہ مامون کے تعلقات اس کے شاہد ہیں۔ امام بخاری اور خالد بن احمد ذہلی والیِ بخاریٰ میں مناقشہ اسی بنا پر ہوا کہ وہ درباری اعزاز کے لیے تیار نہ تھے۔ والیِ بخاریٰ کو یہ ناگوار محسوس ہوئے، تو اس نے انہیں شہر سے نکال دیا۔ جو شخص والی کی خواہش کے مطابق منصب نہیں لینا چاہتا، وہ اس کے لیے سازش کیوں کرے گا؟ (هدي الساري مقدمه فتح الباري: 2/205)
(3) ائمہ سنت اور ائمہ حدیث کے اساتذہ اور تلامذہ کی فہرستیں رجال کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں، ان میں تنقید بےشک ہے۔ وہ بڑی بے جگری سے ظلم بھی برداشت کرتے ہیں، لیکن ان کے مزاج میں کانس پریسی (Conspiracy) نہیں۔ ایک واقعہ پوری تاریخ میں نہیں ملے گا، جس سے یہ محسوس ہو کہ ان بزرگوں نے کبھی کوئی سازش کی ہو۔
(4) صحاح ستہ کے ایک ایک باب کو پڑھ جائیں، آپ احادیث کے مضامین پر تاریخی اعتراض کر سکتے ہیں، اخلاقی شبہات کر سکتے ہیں، مگر وہاں سیاسی سازشوں کے لیے کوئی مواد نہیں ملے گا۔ وہاں سب سے زیادہ یہی ملے گا:
((لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الخَالِقِ)) [1]
یقیناً اس تعلیم میں بغاوت کے جراثیم پائے جاتے ہیں، لیکن یہ بغاوت اسلامی تعلیمات کی جان ہے۔ ﴿أَطِيعُوا اللّٰه وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ﴾ (النساء: 59) میں جا بجا اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
سائل محترم نے امام بخاری رحمہ اللہ کو ایران کے اس حصہ کا متوطن قرار دیا ہے، جہاں سنّی آباد تھے۔ سائل کے وہم کا اس میں یہی جواب موجود ہے۔ سازشی وہ ذہن تھا جس کی ترجمانی ابن علقمی اور طوسی کرتے تھے، سنّی ذہن نے کبھی سازش نہیں کی۔
|