Maktaba Wahhabi

440 - 676
طرح متکلمین اور ائمہ تفسیر، غرض علم کے حفظ و تدوین کا پورا کارخانہ عجمیوں کے سپرد ہو گیا اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی: ((لو تعلق العلم بأكناف السماء لناله قوم من أهل فارس)) [1] اور یہ اس حدیث کا مفہوم ہے، [2] جس سے محترم ناگی صاحب کو چڑ ہے!! سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابتدا میں تو واقعی عربوں پر بدویت غالب تھی کہ وہ صنعت و حرفت سے متنفر تھے، لیکن اب تو وہ حضریت آ چکی تھی۔ پس اس کے تقاضوں کا ظہور ضروری تھا، لیکن عرب پھر بھی نمایاں علمی خدمت نہ کر سکے؟ اس سوال کے جواب میں ابن خلدون رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جن عربوں نے اس حضریت کا زمانہ پایا اور وہ بدویت سے شہریت کی طرف آ گئے، وہ آتے ہی حکومت اور ریاست میں مشغول ہو گئے اور دولت عباسیہ میں انہیں مجبوراً حکومت کی ذمہ داریوں کو اٹھانا پڑا، اور معلوم ہے کہ رؤسا اور دولت مند صنعت و حرفت سے نفرت کرتے ہیں۔ اس لیے عرب اس وقت بھی کوئی اہم علمی کام سر انجام نہ دے سکے اور یہ کام علمائے دین عجم اور موالی کے سپرد رہا۔ مگر عرب ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہے، کیونکہ یہ ان کے علوم تھے اور ان کا اپنا دین تھا۔ عرب کے لیے ضروری تھا کہ وہ علم اور اہل علم کی قدر دانی کریں اور یہ حالت اس وقت تک رہی جب تک کلی طور پر عرب حکومت سے محروم نہیں ہو گئے۔‘‘ [3] اہل قرآن حضرات سے درد مندانہ گزارش: جو شبہ آپ کو آج پیدا ہوا، ٹھیک یہی سوال آٹھویں صدی میں علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کے
Flag Counter